نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پطرس بخاری کے انشائیہ کتے کا خلاصہ

پطرس بخاری کے انشائیہ کتے کا خلاصہ

مصنف کا تعارف:

سید احمد شاہ پطرس بخاری(1898-1958) اردو کے نامور مزاح نگار گزرے ہیں۔پشاور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم پشاور میں ہوئی۔اعلی تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لندن سے واپسی کے بعد ٹریننگ کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے۔1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔ترقی کرکے کنٹرولر جنرل ہوگئے۔ان کی گوناگوں صلاحیتوں کی وجہہ سے اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات کے جنرل سکریٹری بھی بنائے گئے۔یہ پہلے ایشیائی تھے جنہیں یہ اعزاز دیا گیا۔   


اردو مزاح نگاری
 میں پطرس کو اہم مقام حاصل ہے۔ان کی مزاح نگاری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہنسانے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ واقعات کے تسلسل اور کرداروں کی حرکات و سکنات فطری طور پر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کے لیے مزاح کا پہلو نکل آتا ہے۔ان کی زبان سادہ اور شیریں ہے۔اسلوب شگفتہ اور دلچسپ ہے۔جس سے معمولی باتوں میں بھی جان پڑ جاتی ہے۔انہوں نے طنز و مزاح کو اختیار کیا لیکن اپنے مضامین میں مقامی رنگ اور فضا کو پیش کیا۔ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ طنز میں اپنی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ مرید پور کا پیر‘میں ایک میاں ہوں‘مرحوم کی یاد میں‘سویرے جو کل میری آنکھ کھلی اور کتے ان کے مقبول مضامین ہیں۔ان کے مضامین کا مجموعہ ’’ مضامین پطرس‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان کا انتقال1958ء میںہوا۔ان کے مضمون ’’ کتے‘‘ کا خلاصہ پیش ہے۔   

خلاصہ:
سید احمد شاہ پطرس بخاری(1898-1958) اردو کے نامور مزاح نگار گزرے ہیں۔اپنے مزاحیہ مضمون’’کتے‘‘ میں انہوں نے ہمارے ماحول میں آس پاس پائے جانے والے کتوں سے متعلق دلچسپ مشاہدات پیش کئے ہیں۔ پطرس لکھتے ہیں کہ کتے آخر کس کام کے۔ دیگر جانور گائے بکری وغیرہ کے فائدے گنوانے کے بعد انہوں نے سوال کیا کہ کتے کس کام کے پھر جواب دیا کہ کتے وفادار ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کیا یہی وفاداری ہے کہ رات سے صبح تک بھونکنے کا کام اگر وفاداری ہے تو یہ کام ہم بھی کرسکتے ہیں۔رات میں کتوں کے جمع ہونے اور بھونکنے کے منظر کو انہوں نے مشاعرے سے تشبیہ دے دی کہ ایک کتے نے جب آواز لگائی تو اس کے جواب میں کئی کتے بھونکنے لگے۔اس کو انہوں نے دو غزلہ اور سہ غزلہ سنانے کے عمل سے تشبیہ دی۔پطرس کہتے ہیں کہ یہ بھونکنے کا مشاعرہ کرنا ہی تھا تو دریا کے کنارے کرتے بیچ محلے میں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پطرس کہتے ہیں کہ دیسی کتے خاص کوٹ پتلون والوں کو دیکھ کر ہی کیوں بھونکتے ہیں۔شریف لوگوں کی کتوں کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب کسی بنگلے میں جائو تو وہاں کا کتا آپ کو دیکھ کر زیادہ بھونکے گا نہیں بلکہ ایک دو مرتبہ بخ کہے گا جسے انہوں نے موسیقی قرار دیا۔ کہ چوکیداری اور موسیقی ایک کتے سے۔جب کہ وہ دیسی کتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ موقع دیکھتے نہیں اور بھونکنے لگ جاتے ہیں۔پطرس کہتے ہیں کہ کتوںکے مظالم سہنے کے باوجود کبھی ہم نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا جب کہ دوست مشورہ دیتے ہیں کہ رات میں نکلنا ہو تو لاٹھی لے کر نکلو دافع بلیات ہوتی ہے۔جب کہ رات کے وقت اگر کسی کتے سے سامنا ہوجائے تو گلے میں آواز بیٹھ جاتی ہے اور آیت الکرسی ذہن میں آجاتی ہے۔ پطرس لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کے وقت آرہے تھے کسی بکری کو دیکھ کر کتا سمجھ بیٹھے اور ہماری آواز تک بند ہوگئی۔ کتوں سے ڈرکا یہ عالم ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم محتاط ہیں اس لئے ابھی تک کتے کے کاٹے سے بچے ہوئے ہیں۔ اگر کسی کتے نے کاٹ لیا ہوتا تو لوگ یہ مضمون پڑھنے کے بجائے ہمارا مرثیہ پڑھ رہے ہوتے۔ پطرس کہتے ہیں کہ کتے بھونکتے بہت ہیں۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ہر کتا بھونکتا ہی رہتا ہے۔ کوئی کم تو کوئی زیادہ آواز میں۔ کتا بھونکے ضرور لیکن وہ زنجیر سے بندھا ہو۔ کتوں کے بھونکنے پر اعتراض کی وجہہ بیان کرتے ہوئے پطرس کہتے ہیں کہ ان کے بھونکنے سے سوچنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔پطرس کہتے ہیں کہ کچھ کتے شریف بھی ہوتے ہیں۔ اکثر کمزور کتے اس طرح کے ہوتے ہیں سڑک پر چپکے سے لیٹ جاتے ہیں۔ بہت زیادہ ہارن ماریں تو اٹھ کر دور جاکر لیٹ جاتے ہیں اور اف بھی نہیں کرتے۔ پطرس کہتے ہیں کہ اگر خدا انہیں بھونکنے کی صلاحیت دے تو وہ انتقام کے طور پر بھونکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مضمون کے آخر میں کتوں سے متعلق کہاوت’’ بھونکتے ہوئے کتے کاٹتے نہیں‘‘ سے بات بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ کون جانے بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے ۔ اس طرح پطرس نے اس مضمون میں مزاحیہ انداز میں کتوں کے بھونکنے کو بیان کیا ہے۔
مرکزی خیال:پطرس بخاری نے مزاحیہ مضمون’’ کتے‘‘ میں کتوں کی بھونکنے کی عادت کو مزاح کا پہلو بنایا ہے۔ اور کبھی مشاعرے اور کبھی رات کے منظر سے تشبیہ دے کر کتوں سے متعلق اپنے خیالات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ پطرس کے مشاہدات گہرے ہیں اور وہ انہیں مزاح کے پہلو میں پیش کرتے ہیں۔


https://www.sheroadab.org/2022/10/Pitras Bukhari Ka Mazmoon Kutte Ka Tajziya.html


  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو