نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

محاوروں کاپوسٹ مارٹم

محاوروں کاپوسٹ مارٹم  

 उर्दू मुहावरों का पोस्टमॉर्टम

Postmortem of Urdu idioms

آنکھیں 

آنکھیں قدرت کا گراں مایہ انعام ، مگر شاعروں کے لیے تشبیہ کا پیغام ۔ غزالی آنکھیں ، شربتی آنکھیں ، جھیل سی آنکھیں ، شرابی آنکھیں ، سوتی آنکھیں ، جاگتی آنکھیں ، خاموش آنکھیں ، بولتی آنکھیں ، چھلکتی آنکھیں ، نیم باز آنکھیں ، نرگسی آنکھیں ، مئے کے پیالے وغیرہ وغیرہ ۔

عجیب بات ہے دونوں آنکھیں ساتھ ہوتی ہیں لیکن تا عمر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتیں مگر دونوں مل کر کیا سب کو ، کیا جگ کو بلکہ یہ بند ہوکر رب کو بھی دیکھ لیتی ہیں ۔

کمال ہے صاحب ۔۔آنکھ آتی بھی ہے ،آنکھ جاتی بھی ہے !!۔آنکھیں چرائی بھی جاتی ہے ،آنکھیں دکھائی بھی جاتی ہیں ۔۔ایسا عموماً گھریلو تنازعات میں ہوتا ہے ۔آنکھ بھر آتی ہیں تو ،آنکھ خشک بھی ہو جاتی ہے ۔آنکھ لڑائی بھی جاتی ہے تو آنکھ بچائی بھی جاتی ہے ۔۔یہ کار دشوار شاطر قسم کے انجام دیتے ہیں یا قرض دار ۔آنکھوں سے کاجل چرانے کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے ۔۔آنکھ حد نظر دیکھ سکتی ہے ۔۔مگر صاحب !۔۔انیس نے تو کمال ہی کردیا ۔۔گرمی کی شدت کے لیے یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ ،

بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر 

مگر ۔۔نگاہ اگر چلچلاتی دھوپ میں ،کہیں راہ میں رک گئی تو ،


سو آبلے پڑجائیں پائے نگاہ میں 

کیا کہنے ۔۔وااہ 

آنکھ اٹھتی بھی ہے تو جھکتی بھی  ہے ۔۔۔اور پلکوں کی چلمن کا اس میں کافی یوگ دان ہوتا ہے ۔۔آنکھیں جسے ،چشم ،نین،عین اور پتا نہیں کیا کیا کہا جاتا ہے نہ صرف اس میں جھیل کی سی گہرائی ہوتی ہے ۔۔بلکہ دل تک پہنچنے کا راستہ بھی ہوتا ۔۔یہ اور بات کہ اب تک سائنس اس سلسلے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کہ سائنس سنی سنائی پر آنکھ بند کے اعتماد نہیں کرتی ۔

 محبوب لبوں کو چھٹی دے کر آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کرلیتے ہیں ۔ بعض کائیاں کن انکھیوں سے بھی تاکتے ہیں ۔ زندگی کا سفر آنکھ کھلنے سے آنکھ لگنے تک سمجھا جاتا ہے مگر دوران سفر آنکھیں لڑ بھی جاتی ہیں اور بعض اوقات اس لڑائی میں آنکھوں میں جھڑی لگ جاتی ہے ۔ دنیا سے بے رغبتی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھانا، آنکھوں سے نیند کا  اڑنا اور پئے انتظار آنکھوں سے راہ تکتے   رہنا ۔۔۔۔۔انتہا یہ آنکھیں ۔پتھرا جاناجیسے عارضے لاحق ہو جاتے ہیں۔ویسے 

آنکھ بند ہونے سے بہت سی بلائیں ٹل جاتی ہیں ۔مگر نئی بلائیں سر اٹھاتی ہیں ۔۔جہاں صاحب ثروت کی آنکھ بند ہوئی وارثین کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔جو مرحوم کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے وہ ان کے وارثین کی آنکھوں کا تارہ بن جاتے ہیں ۔وہ گھر میں سیند لگاکراہلِ خانہ  کو  آپس میں جوتم پیزار پر آمادہ کردیتے ہیں ۔۔ایسے موقع پر آپ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں  ۔

تو صاحب ۔۔۔ہم بڑے سادہ لوح ہیں ۔۔چکنی چپڑی باتوں پر آنکھ بند کر کے اعتماد کرتے ہیں ۔۔حد تو یہ کہ خوابوں کے جزیرے میں آنکھ بند کر کے کود جاتے ہیں ۔۔۔پورے پانچ سال کے لیے ۔۔۔پھر آنکھوں سے برستی جھڑی کو کون دیکھتا ہے ؟؟۔۔اگر حاکم وقت سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کریں تو مختلف ایجنسیوں کے دھاوے آپ کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہیں  ۔۔۔آپ لاکھ دہائی دیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے !!--کہ آپ کا ورودھ انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔۔۔آپ ورودھی جو ٹھہرے ! 

اردو شعراء کے لیے محبوب کی آنکھیں سب کچھ ہیں ۔۔بلکہ ایک صاحب نے تو باقاعدہ اعلان کر دیا کہ ،

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے 

اب صاحب ۔۔وہ دنیا میں صرف محبوب کی آنکھوں کے درشن کرنے کو آئے تھے تو ہم کیا کرسکتے ہیں !!۔کچھ تو محبوب کی آنکھوں میں مہکتی خوشبو دیکھ لیتے ہیں ۔میرصاحب۔کونیم بازآنکھوں میں شراب کی سی مستی نظر آتی تھی ۔ کچھ منچلے آنکھوں آنکھوں میں بات کرنے کے قائل ہیں ۔۔۔یہ غالباً محتاط عشاق کی قسم ہیں  ۔۔کچھ کن انکھیوں سے گھورنے کے ۔۔یہ بزدلیر عشاق ہوتے ہیں ۔۔کچھ آنکھیں بند کیے وصال کے مزے لیتے ۔۔یہ ماہرین ٹیلی پیتھی ہوتے ہیں ۔۔دنیا رنگ رنگیلی بابا !!!

اقبال کو شکایت رہی کہ ۔۔آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں ۔۔۔گویا اقبال نے وہ وہ بھی دیکھا جو جو وہ بیان نہیں کر سکتے ۔۔لہٰذا یہ کام وہ خود نہ کر خدا کو کہہ گئے ،

دیکھا ہے جو میں نے اوروں کو بھی دکھلادے۔

ظفر صاحب نہ کسی کی آنکھ کا نور تھے نہ کسی کے دل کا قرار تھے ۔۔بہرکیف دلی میں آنکھیں کھولیں ۔۔اور دیار غیر رنگوں میں آنکھیں بند ہوئیں ! چچا غالب نے جہاں ہر موضوع پر کہا ہے وہ آنکھ سے آنکھ کیوں نہ لڑاتے ؟۔۔۔وہ رگوں میں دوڑنے کی بجائے لہو کو آنکھوں سے ٹپکانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔مگر ان کی آنکھوں سے لہو ٹپکا یا نہیں پتا نہیں ۔۔۔مگر آج کل تو ہر کوئی خون کے آنسو رورہا ہے ۔ایک صاحب کی مرنے کے بعد بھی آنکھیں کھلی رہیں ۔۔وجہ ؟۔۔محبوب کے انتظار کی عادت جو پڑگئی تھی ۔۔۔وااہ صاحب ! کس شان سے دنیا سے رخصت ہوئے ۔۔اب پتا نہیں کس عمر میں !۔۔مگر میر تقی میر نے تو پیری میں ہی آنکھیں موندلیں!


ڈاکٹر ارشاد خان 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو