نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سچی دلچسپ داستان۔۔ دوست ضرور پڑھیں ۔*

*سچی دلچسپ داستان۔۔ دوست ضرور پڑھیں ۔*



انگریزی سے ترجمہ ۔۔ *ڈاکٹر منور احمد کنڈے{🇬🇧UK لندن}*



ایک بار ایک ٹی ٹی ای (ٹرین ٹکٹ ایگزامینر) جو ممبئی سے بنگلور جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی پر تھا نے ایک لڑکی کو پکڑ لیا جو ایک سیٹ کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔ اس کی عمر تقریباً 13 یا 14 سال تھی۔ ٹی ٹی ای نے لڑکی سے اپنا ٹکٹ پیش کرنے کو کہا۔ لڑکی نے جھجکتے ہوئے جواب دیا کہ اس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ ٹی ٹی ای نے لڑکی کو فوراً ٹرین سے اترنے کو کہا۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی، میں اس کی قیمت ادا کروں گی۔ یہ آواز تھی مسز اوشا بھٹاچاریہ کی، جو پیشے سے کالج کی لیکچرار تھیں۔ مسز بھٹاچاریہ نے لڑکی کے ٹکٹ کی ادائیگی کی اور اسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔۔ 

اس نے اس سے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ "چترا" لڑکی نے جواب دیا۔

 "اپ کہاں جا رہے ہیں؟" لڑکی نے کہا، ’’میرے پاس جانے کو کوٸی جگہ نہیں ہے۔ 

"تو چلو میرے ساتھ۔" مسز بھٹاچاریہ نے اسے کہا۔

 بنگلور پہنچنے کے بعد، مسز بھٹاچاریہ نے لڑکی کو ایک این جی او کے حوالے کر دیا تاکہ وہاں چترا کی دیکھ بھال کی جا سکے۔

 بعد میں مسز بھٹاچاریہ دہلی شفٹ ہو گئیں اور دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ تقریباً 20 سال کے بعد، مسز بھٹاچاریہ کو ایک کالج میں لیکچر دینے کے لیے سان فرانسسکو، امریکہ مدعو کیا گیا۔ وہ ایک ریستوراں میں کھانا کھا رہی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد، اس نے بل مانگا، لیکن اسے بتایا گیا کہ اس کا بل پہلے ہی ادا ہو چکا ہے۔ جب وہ واپس مڑی تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ مسز بھٹاچاریہ نے جوڑے سے پوچھا، "آپ نے میرا بل کیوں ادا کیا؟" نوجوان عورت نے جواب دیا، "میڈم میں نے جو بل ادا کیا ہے وہ بہت کم ہے، اس کے مقابلے میں جو آپ نے مجھے ممبئی سے بنگلور تک ٹرین کے سفر کے لیے ادا کیا تھا۔ دونوں خواتین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ "اوہ چترا... یہ تم ہو...!!!" مسز بھٹاچاریہ نے خوشی سے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔

 ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے، نوجوان خاتون نے کہا، "میڈم اب میرا نام چترا نہیں ہے، میں سودھا مورتی ہوں، اور یہ میرا شوہر ہے... نارائن مورتی۔

دوستو آپ حیران نہ ہوں۔ آپ انفوسس لمیٹڈ کی چیئرلیڈی مسز سودھا مورتی اور ملٹی ملین انفوسس سافٹ ویئر کمپنی قائم کرنے والے مسٹر نارائن مورتی کی سچی کہانی پڑھ رہے ہیں۔ 

جی ہاں، جو تھوڑی سی مدد آپ دوسروں کو دیتے ہیں وہ ان کی پوری زندگی بدل سکتی ہے! "براہ کرم مصیبت میں مبتلا لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے سے باز نہ آئیں، خاص طور پر جب یہ آپ کے اختیار میں ہو"۔

 آپ کو ایک خوبصورت خوشگوار زندگی کی خواہش ہے...؟ اس کہانی کی ذرا گہرائی میں جاٸیں..

 *اکشتا مورتی اس جوڑے کی بیٹی ہے اور رشی سونک Rishi Sunik سے شادی کی ہے جو اب برطانیہ کے وزیر اعظم بن گٸے ہیں۔*

 🌹👏👌🏼💐

 [ انگریزی سے ترجمہ ]

*منور احمد کنڈے{لندن 🇬🇧UK} 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو