نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

( حقیقی خوشی ) جب ہندوستانی ارب پتی رتن جی ٹاٹا سے ٹیلی فون پر

( حقیقی خوشی )

جب ہندوستانی ارب پتی رتن جی ٹاٹا سے ٹیلی فون پر انٹرویو میں ریڈیو پریزینٹر نے پوچھا:

 "جناب آپ کو کیا یاد ہے جب آپ کو زندگی میں سب سے زیادہ خوشی ملی"؟

 رتن جی ٹاٹا نے کہا:

 "میں زندگی میں خوشی کے چار مراحل سے گزر چکا ہوں، اور آخر کار میں نے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ لیا ہے۔"

 پہلا مرحلہ دولت اور وسائل جمع کرنا تھا۔

 لیکن اس مرحلے پر مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو میں چاہتا تھا۔

 پھر قیمتی اشیاء اور اشیاء جمع کرنے کا دوسرا مرحلہ آیا۔

 لیکن میں نے محسوس کیا کہ اس چیز کا اثر بھی عارضی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک زیادہ دیر نہیں رہتی۔

 پھر ایک بڑا پروجیکٹ حاصل کرنے کا تیسرا مرحلہ آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان اور افریقہ میں ڈیزل کی سپلائی کا 95% میرے پاس تھا۔

 میں ہندوستان اور ایشیا کی سب سے بڑی اسٹیل فیکٹری کا مالک بھی تھا۔ لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں نے تصور کیا تھا۔

 چوتھا مرحلہ تھا جب میرے ایک دوست نے مجھ سے کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیئر خریدنے کو کہا۔

 تقریباً 200 بچے۔

 ایک دوست کے کہنے پر میں نے فوراً وہیل چیئر خرید لی۔

 لیکن دوست نے اصرار کیا کہ میں اس کے ساتھ جاؤں اور وہیل چیئر بچوں کے حوالے کروں۔ میں تیار ہو کر اس کے ساتھ چلا گیا۔

 وہاں میں نے ان بچوں کو یہ وہیل چیئر اپنے ہاتھوں سے دی۔ میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی ایک عجیب سی چمک دیکھی۔ میں نے ان سب کو وہیل چیئر پر بیٹھے، چلتے اور مزے کرتے دیکھا۔

 ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی پکنک کے مقام پر پہنچ گئے ہوں، جہاں وہ جیتنے والا تحفہ بانٹ رہے ہوں۔

 میں نے اپنے اندر حقیقی خوشی محسوس کی۔ جب میں نے جانے کا فیصلہ کیا تو ایک بچے نے میری ٹانگ پکڑ لی۔

 میں نے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں چھوڑنے کی کوشش کی، لیکن بچے نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور میری ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ لی، میں نے جھک کر بچے سے پوچھا: کیا تمہیں کچھ اور چاہیے؟

 اس بچے نے جو جواب دیا اس نے نہ صرف مجھے چونکا دیا بلکہ زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بھی بدل دیا۔

 اس بچے نے کہا:

 

 *"میں آپ کا چہرہ یاد رکھنا چاہتا ہوں تاکہ جب میں آپ سے جنت میں ملوں تو میں آپ کو پہچان سکوں اور ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کروں۔"*

( شکریہ شمیم عباس بمبئی )

COPIED 🌹🌹🌹 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو