نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مہم "رجوع الی القرآن

*السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*


       الحمدللہ۔۔ *مہم "رجوع الی القرآن"* 14تا 23اکتوبر ، جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ملک گیر مہم منائی جا رہی ہے۔۔۔  


      اس مہم کی مناسبت سے، شعبہ خواتین مانوی کی جانب سے یہ طے کیا گیا کہ مہم، قرآن کے متعلق ہے ۔۔ تو تمام ارکان و کارکنان خواتین کے لیے قرآن فہمی کی کلاس رکھی جائے۔۔۔ مقصود یہ کہ اس کلاس سے ہم خواتین کے اندر قرآن فہمی کا شعور پیدا ہو۔۔۔ اس کلاس کا منصوبہ بناتے وقت ہی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ، اس کلاس کے روح رواں محترم عبداللہ جاوید صاحب ہوں گے۔۔۔۔ 


     الحمدللہ۔۔ بروز منگل، 18اکتوبرصبح 11:00بجے سے اس پروگرام کا آغاز ہوا ۔۔۔ پروگرام کا افتتاح، درس قرآن کے ذریعہ ہوا۔۔۔ جس کے لیے سورہٴ یونس کی آیات 57 اور 58 کو منتخب کیا گیا تھا   


     تقریباً 11:30بجے قرآن فہمی کی کلاس شروع ہوئی، جس کے نگران کار،محترم عبداللہ جاوید صاحب تھے۔۔۔ سب سے پہلے مختصراً، قرآن مجید کی اہمیت اور فضیلت کو واضح کرتے ہوئے، تین اہم نکات پر گفتگو ہوئی اور تبادلہ خیالات اور سوالات کے ذریعے سے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔۔۔ اس کلاس میں ساری گفتگو جن نکات پر مشتمل رہی۔۔ اس کا خلاصہ یہاں پر پیش خدمت ہے:  


1) *قرآن کی تلاوت*:تلاوت قرآن صحیح انداز میں اور ترتیل کے ساتھ کی جائے۔۔ تجوید، مخارج کا خاص خیال رکھا جائے۔۔۔۔ قرآن مجید کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دستر خوان (حدیث) دستر خوان جب سجایا جاتا ہے تو اس پر مختلف انواع واقسام کے کھانے اور پینے کی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔۔۔ اور دستر خوان پر موجود تمام ہی غذائیں صحت اور توانائی فراہم کرنے والی ہوتی ہیں۔۔۔ اسی طرح، قرآن مجید بھی ہمارے لیے سارے کا سارا ہدایت، رحمت اور برکت ہے۔۔ جس میں تنذیر کا پہلو بھی ہی، اور تبشیر کا بھی۔۔۔ دونوں پہلو میں سراسر ہدایت و رہنمائی ہے تمام انسانیت کے لیے۔۔۔ جس طرح غذا ضروری ہے جسم کے لیے، اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت ضروری ہے روح کے لیے۔۔ جس طرح دستر خوان، ہمارے گھر میں کم سے کم تین مرتبہ بچھایا جاتا ہے، اسی طرح قرآن، یا اس سے بڑھ کر ہمارے گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت ہونی چاہیے۔۔۔ جس طرح، ہوا، پانی، اور غذا، انسان کی اولین ضروریات میں سے ہیں، اسی قرآن مجید بھی ہماری اولین ضرورت ہے۔۔۔۔ 


2) *تدبر و تفکر*:قرآن مجید کو سمجھنا اور غور و فکر کرنا بہت اہم ہے۔۔۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے،کوئی بھی زبان ( Language) سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔۔ قرآن مجید کا فہم اس وقت تک ہمیں حاصل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ ہم سمجھنے کے ساتھ ساتھ عملی تجربہ نہ کریں۔۔ انسان کو چاہیے کہ غور و فکر، اور تدبر و تفکر کا آغاز اپنے گھر سے کرے۔۔۔ 

            مثلاً ہم اپنے گھر میں پانی پر نظر ڈالیں۔۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو یاد کریں۔۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ، تم پانی کو دیکھو کہ کس طرح ہم نے اسے تمہارے لیے میٹھا بنایا ہے۔۔ اگر اس پانی کو اللہ تعالیٰ، کھاری اور کڑوا بنا دے، تو کون ہے جو اس پانی کو ہمارے لیے میٹھا اور ذائقہ دار بنائے۔۔ تب ہمیں پتہ چلے گا کہ، پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔۔ کیونکہ دنیا کتنی بھی ترقی کر لے، اور کیسی ہی ٹیکنالوجی کو ایجاد کرلے، اور کتنی ہی فیکٹریاں بنا لے۔۔۔ لیکن پانی کی ایک بوند کو نہیں بنا سکتا۔۔ تب جا کر ہمارے اندر شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوگا، اور ہم کبھی ہم ایسی نعمت کو ضائع نہیں کریں گے۔۔ 


    اسی طرح انسان اپنے کھانے کو دیکھے، کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اناج اگایا ہے اور کس اناج کے ایک ایک دانے کے اگنے کے پیچھے اللہ کی قدرت کار فرما ہے۔۔ دیکھنے کو تو ، ایک بیج ہوتا ہے۔۔ لیکن اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک کائنات رکھ دی ہے۔۔وہ بیج اپنے اندر اتنی طاقت رکھتا ہے کہ، زمین میں داخل ہو کر اپنی ایک دنیا قائم کرے۔۔ اور یہ انسان کا کام نہیں ہے کہ کسی دانے کو اگنے پر مجبور کرے۔۔۔ بلکہ کسان کا کام تو بس یہی ہے کہ وہ دانہ بوۓ اور اس کی دیکھ بھال کرے۔۔ اور اس بات کا انتظار کرے کہ، کب فصل زمین سے باہر اپنا سر نکالتی ہے۔۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ، جو بیج تم زمین میں بوتے ہو، اس سے اناج پیدا کرنے والے تم ہو کہ ہم؟ اگر واقعی میں ہمیں ان باتوں کا احساس ہو جائے تو ہمارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔۔۔۔ اور ان باتوں کو وہی شخص محسوس کر سکتا ہے، جس نے اس مرحلہ وار پیدا وار( Process) پر غور کیا ہوگا۔۔  


  اسی طرح اگر انسان، اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ نے، زمین کو ہموار بنایا، آسمان کو بغیر کسی ستون کے کھڑا کیا، پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں گاڑ دیا، تاکہ زمین کا توازن قائم رہے، اور درختوں کے ذریعے سے اناج اور پھلوں کا بندوبست فرمایا، جن کے رنگوں اور ذائقوں میں بھی بہت بڑی نشانیاں موجود ہیں۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ 

       رات اور دن کے باری باری آنے اور جانے میں بھی، ہمارے لیے بہت سے فوائد پوشیدہ ہیں۔۔ زمین کی حیرت انگیز رفتار کا اگر ، اندازہ کریں، تو ہماری عقل حیران رہ جائے گی۔۔ یہ اور ایسی بے شمار نشانیاں، جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اس پر غور و فکر اور تدبر ہونا چاہیے۔۔۔ تاکہ ایک طرف ہم، اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں، تو دوسری طرف ان نعمتوں کا صحیح استعمال ہو، اور ان کی قدر کرتے ہوئےمناسب اور متوازن طور پر اس دنیا کی ہر نعمت کو برتا جائے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی میزان میں خلل واقع نا ہو۔۔ 

   غور و فکر اور تدبر کے ذریعہ سے، جہاں ایک طرف ہمیں رب کی معرفت نصیب ہوگی، تو دوسری طرف، اللہ تعالیٰ کے ان انعامات اور اکرامات کی قدر بھی پیدا ہوگی، جس کے نتیجہ میں، ہمیں اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے محبت ہو جائے گی، اور ان سب سے ایک خاص ربط ہم محسوس کریں گے۔۔۔۔۔ 


3) *قرآن پر عمل*:عمل کی منزل، تلاوت اور تدبر سے ہو کر ہی گزرتی ہے۔۔۔ تلاوتِ قرآن پاک، اور تدبر و تفکر، گویا کہ وہ سنگ ِمیل ہیں، جو عمل کا راستہ اور پتہ دیتے ہیں۔۔۔ 

     عمل کا آغاز بھی، اپنی شخصیت اور اپنے گھر سے ہو۔۔ گھر میں ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، جس میں مختلف رشتے اور ناطوں سے ہم بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔۔ 

   اگر ان رشتوں کو ہم قرآن مجید کی نظر سے دیکھیں، تو ، اللہ تعالیٰ کے مقام اور مرتبہ کے بعد، اگر کسی کا مقام ہمیں نظر آتا ہے، تو وہ ہے والدین کا۔۔۔ والدین کا تعلق اور رشتہ ہی ایسا بلند ہے، جس کے تعلق سے کہا گیا کہ، حسن سلوک کے، سب سے پہلے اگر کوئی حقدار ہیں، تو وہ ہمارے والدین۔۔۔ قرآن مجید ہمارے آگے عمل کا دروازہ کھولتا ہے کہ، جب تمہارے والدین، یا ان میں سے کوئی ایک، بڑھاپے کی حالت کو پہنچ جائیں تو تم انہیں اُف تک نا کہو۔۔۔  

   ذرا سب سے پہلے اپنا جائزہ لیں۔۔ اور پھر معاشرہ کا۔۔۔ کیا ہم اور ہمارا معاشرہ، اس قرآنی ہدایت عمل پیرا ہیں؟ ہمارے معاشرہ کا حال کیا ہے؟ ہمارے معاشرہ میں ایسی اولاد کا فیصد کتنا ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔۔کیاOldage Homes کی تعداد شہروں میں دن بدن نہیں بڑھ رہی ہے؟  

     حقیقت یہ کہ اولاد کے نافرمان ہونے میں بھی کہیں ناکہیں، والدین کی بے عملی اور غفلت ہی وجہ بنتی ہے۔۔ کیونکہ ہم قرآنی والدین نا بن سکے۔۔۔۔ قرآن ہمارے سامنے، حضرت لقمان، جیسے باپ کی کیرکٹر پیش کرتا ہے، جس میں، اخلاق کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا گیا ہے۔۔۔ اور ایک ایسی دعا سکھائی گئی ہے کہ، جس دعا کے ذریعہ سے اولاد، والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک بن سکتی ہے۔۔ 

ربناھب لنا من ازواجنا وذريتنا قرةاعين، واجعلنا للمتقین اماما

    والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک ، اولاد اسی وقت بن سکتی ہے، جب وہ اللہ اور اس رسول ﷺ کے حکموں کی پابند ہو۔۔۔ 

   اسی معاشرہ کو بہتر بنانا ہے، تو سورة الحجرات کی آیات پر عمل کریں۔۔۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے، ایک مہذب اور باوقار معاشرہ کا نقشہ کھینچا ہے۔۔۔۔ عمل کے تعلق سے یہ اور اس قسم کی بے شمار آیات ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں۔۔۔۔۔۔ جس پر عمل کی کوشش ہونی چاہیے اور دن بدن ہماری اور ہمارے معاشرے کی کیفیات بہتر سے بہترین ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔ 


الحمدللہ، ان سارے موضوعات پر، قرآن مجید کی روشنی میں گفتگو ہوئی۔۔ اور وقت کا پتہ نا چل سکا ک، دو گھنٹے کی یہ کلاس کا وقت کتنی تیزی سے گزر گیا۔۔ 

    کلاس کے آخر میں سوالات اور جوابات کے لیے، بہت تھوڑا سا وقت رہا۔۔۔ اور آخر کار، یہ پروگرام اختتام کو پہنچا۔۔۔  

   الحمدللہ۔۔ اس کلاس میں، ہم نے قرآن مجید کی تلاوت کی اہمیت اور آداب کوجانا، اللہ تعالی کی قدرت کا مشاہدہ کیا (اپنی حد تک)، اور ان نعمتوں کا اندازہ ہم نے کیا، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں۔۔۔۔۔ 

خلاصہ یہ کہ، انشاءاللہ، ہمیں اللہ تعالٰی سے امید ہے کہ، مہم"رجوع الی القرآن "ہماری زندگی میں ایک نئی بہار لے کر آئے گی۔۔۔ اور قرآن مجید کی تلاوت، تدبر و تفکر اور عمل کی طرف راغب کرے گی۔۔۔۔  


       اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ، قرآن مجید کو ہماری آنکھوں کا نور اور سینے کی بہار بنا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


عائشہ صدیقہ(معاون ناظمۂ خواتین، مانوی) شعبہ ٔخواتین جماعت اسلامی ہند 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو