نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ساحر کا سحر اب بھی جاری

ساحر کا سحر اب بھی جاری 


                  (تین مجموعوں کے حوالے سے) 


اسلم چشتی پونے ( انڈیا ) 9422006327 

(چیئرمین صدا ٹوڈے اُردو نیوز ویب پورٹل) 

Sadatodaynewsportal@gmail.com 

www.sadatoday.com 



اُردو زبان کے شعری ادب میں ساحر لدھیانوی کی شخصیت اور ان کا فن مثالی اور مُنفرد رہا ہے - گو کہ یہ ترقّی پسند تحریک سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی شاعری کا رنگ سب سے الگ رہا  -  ان کی شخصیت افسانوی عوامل کی حامل رہی  - ان کی شہرت ان کے کالج کے زمانے سے شروع ہوئی اور ان کی آخری سانس لینے پر  بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں  اضافہ ہی ہُوا ہے - ساحر کی شاعری کا سحر ان کی حیات میں سر چڑھ کر بولتا رہا  یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے - 


ساحر لدھیانوی نے کم عمر پائی یعنی صرف 52 برس ، عمر کی اس کم مُدّت میں اعلٰی تعلیم بھی حاصل کی، ادبی صحافت میں  نام پیدا کیا، ترقّی پسند ادب کی نمائندگی بھی کی، ظلم کے خلاف عملی قدم بھی اُٹھایا ، قلمکاروں کے حقوق کے لئے حکومتِ وقت سے ٹکّر  لی اور کامیابی  حاصل کی، عشق کیا تو مثالی، احتجاج کیا تو انقلابی اور شاعری کی تو ساحری ثابت ہوئی، فلمی گیت لکھّے تو ماضی کے سحر کو توڑا اور گیت کاری کو نیا موڑ دے دیا - 


خوددار، حق کے طرفدار ساحر کا کردار اپنے ہمعصروں میں آخری دم تک بلند رہا - انھوں نے اپنی سوچ کا اظہار شاعری میں کرنا مناسب سمجھا - ان کی عمر کے تناسب سے سوچا جائے تو ان کی شعری تخلیقات کی عمر تیس پینتیس سے زیادہ نہیں - اس عرصے میں جو کچھ کہا ایک ایک مصرعہ عوام و خواص کے اذہان میں نقش ہو گیا - ایسی مقبولیت ہندی اور اُردو کے کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہو سکی ،  سامعین اور قارئین کی چاہت کے سلسلے میں بھی ساحر خوش نصیب رہے  - لیکن حقیقی زندگی میں بد نصیبی کے سائے ان کا پیچھا کرتے رہے - دُکھ دیتے رہے - عشق میں ناکامی، باپ کی شفقت سے محرومی ،  کنوارے پن کا کرب ،. دوستوں کی بے رُخی، فلمی سازشیں، وطن کی مٹّی سے دوری ، دربدری، جدوجہد،تعجب ہے ان تمام باتوں کا اثر ان پر منفی نہیں ہُوا بلکہ ان کی شاعری نے اسے مُثبت کر دکھایا - اپنی ذات پر اعتماد اور ان کی ماں کی ممتا کی قوّت نے ان کا قدم قدم پر ساتھ دیا  انھیں پُر وقار طریقے سے جینے میں مدد دی - جو کچھ دُنیا نے دیا تھا سب لوٹا دیا - 


  دنیا نے  تجربات  و حوادث کی   شکل میں 

  جو کچھ مُجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں مَیں 


ساحر لدھیانوی کی شاعری کا کم و بیش کُل سرمایہ ان کے تین مجموعوں پر مُشتمل ہے - تلخیاں ، آؤ کہ کوئی خواب بُنیں اور گاتا جائے بنجارہ ، پہلا مجموعہ" تلخیاں " 1944.ء میں شایع ہُوا اور اس کا پچیسواں ایڈیشن 1980.ء میں چھپا اس کے بعد بے حساب ایڈیشن اب تک شایع ہو رہے ہیں - یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے - ساحر کی مشہور نظم جو ایک طویل اور شاہکار نظم ہے کتابچہ کی شکل میں شایع ہوئی تھی جسے " آؤ کہ کوئی خواب بُنیں " میں شامل کر لیا گیا ہے " گاتا جائے بنجارہ" کے بھی کئی ایڈیشن شایع ہو چُکے ہیں - اس میں ادبی معیار کے ساحر کے گیت ہیں اور کچھ غیر مطبوعہ کلام بھی ہے - ان کی کتابیں اُردو کے بنسبت ہندی زبان میں زیادہ تعداد میں بکی ہیں - بار بار شایع ہوکر اب بھی مارکیٹ میں ہیں - اس سے ان کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے - اس کے علاوہ فلمی گانوں کی شہرت اور مُشاعروں کے حوالے سے عوام میں ان کی چاہت اپنی مثال آپ ہے - 


ساحر کی آپ بیتی کا درد ان کی شاعری میں جگہ جگہ شدّت سے نظر آتا ہے - یہ آپ بیتی عام آدمی کے سپنوں، محرومیوں، آرزوؤں، دُکھوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے پُر ہے یہ وہ کیفیات ہیں جو ہر آدمی کی زندگی سے کہیں نہ کہیں جُڑے ہوئے ہیں اس لیے یہ آپ بیتی کا درد جگ بیتی کا درد بن جاتا ہے اور قارئین اور سامعین کے دلوں کو چھو لیتا ہے احساس کے تاروں کو چھیڑ دیتا ہے اس لیے ساحر کے کلام کو چاہنے والوں کی نہ کمی کل تھی اور نہ آج ہے - ساحر کی مشہور بے مثال نظم " تاج محل" کا یہ شعر دیکھیں - 


                اک شہنشاہ نے دولت  کا سہارا لے  کر 

                 ہم غریبوں کی مُحبّت کا اُڑایا ہے مذاق 


ساحر کی شاعری فہم و فراست سے آراستہ ہے - کسی بھی صنفِ شاعری میں بھرتی کے مصرعے شاید ہی ملیں - موضوع کو تقویت پہنچانے والے مصرعے ہی ملیں گے - اور موضوع سماج میں پھیلے ہوئے مسائل کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہوتا ہے اسے ساحر کی شعری ذہانت ہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے شاعری بہت ہی سوچ سمجھ کر بڑے ہی سلیقے سے کی ہے اور اپنے احساسات اور جذبات کو پوری طرح سامعین اور قارئین تک پہنچانے کے جتن کیے ہیں - اظہار کا یہ احتیاط اور یہ طریق کار ساحر کی شاعری کا خاص وصف قرار دیا جا سکتا ہے - 


ساحر لدھیانوی کی شاعری کا احاطہ کرنا سماجی شعور اور عصری مسائل کی جانکاری کے بغیر نا ممکن ہے - ساحر کی ذہانت نے اپنے دور کے اُن مسائل کی گرفت کی ہے جو انسانی فطرت کا حصّہ ہیں جیسے ظلم، نا برابری، نا انصافی، مرد سماج میں عورت پر ظلم،. غریب کی مجبوری ، حکومت کی سیاسی چالاکی وغیرہ یہ ایسے مسائل ہیں جو ہر دور میں رہتے ہیں کبھی کم تو کبھی زیادہ- یہی وجہ ہے کہ ساحر کے کلام کی تازگی برقرار ہے اور رہے گی - مثالیں تو کئی ہیں، کچھ مثالیں پیش ہیں - 


لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں 


( فلم انصاف کا ترازو) 


دامن   میں داغ  لگا.   بیٹھے 

ہم پیار میں دھوکہ کھا بیٹھے 


(فلم دھول کا پھول) 


مجرم ہوں میں اگر ، تو گنہگار تم بھی ہو 

اے  رہبران  قوم  خطا  کار    تم بھی  ہو 


-----------


ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا   ہے 

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا 


------------


جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے 

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی 


------------


غالب جسے کہتے ہیں اُردو ہی کا شاعر تھا 

اُردو پہ ستم ڈھاکے  غالب پہ  کرم  کیوں  ہو 


ساحر لدھیانوی نظم کے شاعر تھے- ان نظموں کے کچھ دو دو مصرعے شعر کی شکل میں بھی مقبولِ عام ہیں - ان کی شعری کائنات میں غزلیں بہت ہی کم ہیں - جو ہیں وہ ان کے مزاج کے لحاظ سے ہیں - کچھ غزلیں جو بے حد مشہور ہیں اور فلم کے ذریعے عوام میں آئیں ان کا ایک ایک مصرعہ مُلاحظہ فرمائیں - 


مُحبّت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے 


--------


تنگ آ چُکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم 


---------


دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے 


----------


ساحر لدھیانوی کی شعری کائنات کا یہ مُختصر ترین جائزہ میں نے اپنی بساط کے مطابق رقم کیا ہے - یہ کائنات تو مُفصّل اظہار چاہتی ہے - بہرحال تین مجموعئہ کلام اور کچھ فلمی گیتوں کے اس شاعر نے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ اکیسویں صدی میں بھی تروتازہ ہیں ساحر کا سحر اب بھی جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا - میں ساحر کے ایک شعر پر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں مُلاحظہ فرمائیں - 


            مانا  کہ  اس   زمیں کو   نہ گلزار کر   سکے 

            کچھ خار کم تو کر گئے گذرے جدھر سے  ہم 


Aslam Chishti Flat No 404 Shaan Riviera Aprt 45 /2 Riviera Society Wanowrie Near Jambhulkar Garden Pune 411040 Maharashtra aslamchishti01@gmail.com 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو