نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا 


( ایک تقریر )


وما ارسلنک الا رحمت اللعالمین 


سامعین ! میں نے آپ کے سامنے سورۃ انبیاء کی ایک آیت پڑھی ۔اللہ تعالی رسول اکرم ﷺ کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ،،اے محمد ﷺ ہم نے آپ کو سارے جہاں اور جہاں والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے ۔،،یہ خدا کی طرف سے برملا اعلان ہے اور یہ اعلان اس صحیفے میں کیا گیا ہے جسے ابتدائے نزول سے تا قیامت دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جائے گا ۔اس محسن انسانیت ﷺکے بارے میں الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا ہے ،


اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا 

اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا 


آپ ﷺ بعثت اس دور میں ہوئی جب دنیا پھر ظلمت چھائی ہوئی تھی ۔ ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا ۔ کیا وہ ایک یا دو قوموں کے انحطاط یا اخلاقی بگاڑ کا مسئلہ تھا ؟ اخلاقی جرائم کا مسئلہ تھا ؟ شراب نوشی ،قمار بازی ، عیش پرستی ، حرص وہوس، حقوق کی پائمالی ، ظلم و ستم ،معاشی استحصال ،جابر وبیداد حکومتوں کے ظالمانہ نظام اور غیر منصفانہ قوانین کا مسئلہ تھا ؟؟ ۔۔مسئلہ یہ تھا کہ انسان ،انسان کو خاک میں ملا رہا تھا ۔مسئلہ یہ نہیں تھا کہ عرب کے کچھ سنگ دل اور شقی القلب لوگ اپنی معصوم بچیوں کو جھوٹی شرم اور خیالی ننگ وعار سے ایک خودساختہ تخیّل اور ایک ظالمانہ روایت کی بنا پر اپنے ہاتھوں زمین میں زندہ دفن کردینا چاہتے تھے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ بربریت اپنی پوری نسل کو زمین میں گاڑ دینا چاہتی تھی ۔

سامعین ! یہ وقت ہے جب اللہ جل شانہ کے اذن سے کائنات کروٹ لیتی ہے ، اس کی رحمت کا ظہور ہوتا ہے ،اس وقت باد بہاری کا جھونکا آتا ہے اور مردہ انسانیت کو تروتازہ اور اس خزاں رسیدہ چمن کو پر بہار کردیتا ہے ۔وہ نور مجسم ،ہادی برحق ،ساقیِ کوثر ،شافع ؟محشر ﷺ تشریف لائے ہیں جن کی عظمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا بس اتنا ہی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ،

،


   سلام اس پر کہ جس نے بےکسوں کی دستگیری کی 


سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی 


سلام اس پر کہ جس کا 

ذکر ہے سارے صحائف میں 


سلام اس پر ہوا مجروح جو بازار طائف میں 


محسن انسانیت ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔آپ ﷺ سرتاپا رحمت تھے ۔ بتائیے ! کیا تاریخ ایسی کوئی مثال دے سکتی ہے کہ ایک بڑھیا روز راستے میں 

نجاست ڈالتی ہے آپ مسکراکر اسے ہٹا کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔پھر خلاف معمول وہ بڑھیا دو روز تک نظر نہیں آتی تو آپ اس کے گھر جاتے ہیں اور اس کی مزاج پرسی کرتے ہیں ۔مکہ میں جب قحط کا زمانہ آتا ہے تو غلہ کی رسد جاری کردیتے ہیں ۔ مکہ والے جو آپ کے خون کے پیاسے تھے انہی خون کے پیاسے جنگی قیدیوں کی کراہیں آپ ﷺ کے گوش مبارک تک پہنچتی ہے تو آپ ﷺ قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کردیتے ہیں ۔

سامعین !! بتائیے ،ہے ایسی کوئی شخصیت جو پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھود رہی ہو ؟بتائیے ، ہے ایسی کوئی مثال جو شافع محشر ہو مگر اپنے احتساب سے لرزہ براندام ہو ، وہ کہ جو امی ہو مگر اس کے منہ سے علم و حکمت کے پھول جھڑتے ہوں ۔ وہ کہ جس نے فقیری میں بادشاہی کی ہو ، وہ جو خود بھوکا رہ کر اوروں کو کھلاتا ہو ، وہ کہ جو فرش خاک پہ سوتا ہو ، وہ کہ جو راتوں کو جاگ کر اپنی امت کے لیے روتا ہو ، وہ کہ جس نے کفر کی قوت کچل ڈالی ہو ، وہ کہ جس نے زمانے کی فضا بدل ڈالی ہو !!

بے شک رحمت عالم کے لیے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے ،


دنیا اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد ﷺ

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا 


ڈاکٹر ارشاد خان 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو