نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

یوم سر سید کی مناسبت سے کچھ نظمیں بغرض اشاعت

یوم سر سید کی مناسبت سے کچھ نظمیں بغرض اشاعتsir Syed day 

Youm e sir syed





اے ایم یو ہے سرسید کے خوابوں کی تعبیر 

جس نے بدل دی برصغیر میں ملت کی تقدیر

اب ہے ہمارا فرض بڑھائیں ان کی شمع علم کی لو

جس سے بدل سکتی ہے اب بھی موجودہ تصویر


قوم کے رہنما تھے سرسید 

آحمد علی برقی اعظمی 


قوم کے رہنما تھے سرسید

فخر دانشوراں تھے سرسید

خود میں اک انجمن تھی اُن کی ذات

شمعِ اردو زباں تھے سرسید

جس سے ہے ضوفشاں جہانِ ادب

ایسی اک کہکشاں تھے سرسید

پھونک کر روحِ زندگی اس میں

جسمِ ملت کی جاں تھے سرسید

وہ علی گڈھ ہو یا کہ غازیپور

ان کی روحِ رواں تھے سرسید

ہے رواں اُن کا ’’ چشمۂ رحمت ‘‘

ایک مدت جہاں تھے سرسید

اب بھی ہے جو رواں دواں ہرسو

ایسا اک کارواں تھے سرسید

اُن کو مانیں نہ مانیں بھارت رتن

شانِ ہندوستاں تھے سرسید

ویسے ہی ضوفشاں ہیں وہ برقیؔ 

جس طرح ضوفشاں تھے سرسید


یوم سرسید اور اس کی عصری معنویت : منظوم تاثرات

احمد علی برقی اعظمی 

جشن سرسید منانا بھی ضروری ہے مگر

قومی و ملی مشن بھی ان کے ہوں پیش نظر

اس کی عصری معنویت آج بھی ہے برقرار

جس ضرورت کے لئے کوشاں رہے وہ عمر بھر

کیجئےشرمندہ تعبیر سرسید کے خواب

جس سے ان کے کارنامے ہر طرف ہوں جلوہ گر

ہے ضروری علم کی ترویج ازروئے حدیث

علم ہی دراصل ہے نخل سعادت کا ثمر

اک زمانہ تھا کہ اپنا دبدبہ تھا ہر طرف

" نیل کے ساحل سے لے کر تا بحد کاشغر "

ابن رازی تھا کوئی کوئی عمر خیام تھا

ہوگئے ناپید اب کیوں ہم میں ایسے دیدہ ور

کیجئے برقی خدارا آپ اس کا احتساب

تاکہ ہو نسل جواں علم و ہنر سے بہرہ ور


بیادِ یوم سرسید

احمد علی برقی اعظمی

یاد رکھیں یومِ سرسید ہے آج

ہے دلوں پر اہل دل کے جن کا راج

آج ہی پیدا ہوا وہ عبقری

جس نے بدلا وقت کا اپنے مزاج

کرگئے پیدا وہ اک فکری نظام

ختم کرکے سارے فرسودہ رواج

عہد میں اپنے جہالت کے خلاف

تھی بلند اُن کی صدائے احتجاج

زندۂ جاوید ہیں اُن کے نقوش

کام ایسے کرگئے بے تخت و تاج

جن کے دل میں ملک و ملت کا ہے درد

ہیش کرتے ہیں انھیں اپنا خراج

قوم کے تھے وہ حقیقی رہنما

معترف ہے کام کا اُن کے سماج

عصرِ حاضر میں بھی برقی اعظمی

ہے ضرورت اُن کے ہوں سب ہم مزاج


نذرِ محسنِ ملک و ملت و بانی مسلم یونیورستی سر سید احمد خان

احمد علی برقی اعظمی


اگر ہوتے نہ سرسید نہ جانے ہم کہاں ہوتے

زباں رکھتےہوٸے بھی اپنے منھ میں بے زباں ہوتے


علی گڈھ میں اگر قاٸم نہیں کرتے وہ اے ایم یو

نہ جانے کتنے اہل علم بے نام و نشاں ہوتے


اگر روشن نہیں کرتے چراغ علم و دانش وہ

ادب کے اتنےمہر و ماہ کیسے ضوفشاں ہوتے


اگرکرتے نہیں ترویج وہ روشن خیالی کی

مشاہیر ادب اپنے نہ زیب داستاں ہوتے


حسین آزاد و حالی، شبلی و ڈپٹی نذیر احمد 

سپہر فکروفن کی کیسے برقی کہکشاں ہوتے


علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کی تاسیس کی صد سالہ تقریبات اور اس کی علمی و ادبی خدمات پر منظوم تاثرات

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

ہوگٸی اے ایم یو کی تاسیس کی پوری صدی

ضوفگن ہے علم کی جس سے جہاں میں روشنی

جاری و ساری ہے سرسید کا یہ علمی مشن

ملک و ملت کے لٸے تھی وقف جن کی زندگی

ہے یہ دانشگاہ فکروفن کا دلکش اتصال

ٕبخشتی ہے اہل دانش کو جو عصری آگہی

اس کی ہیں خدمات ارباب نظر پر آشکار

” قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری “

ہے یہ دانشگاہ وہ سرچشمہ عصری علوم

جس کی عصری معنویت کم نہیں ہوگی کبھی

ہے یہ سرسید کی عملی زندگی کا شاہکار

ان کے خوابوں کی حسیں تعبیر ہے جو آج بھی

ہے جو سرسید کی ہر تحریر اور تقریر میں

گونجتی ہے وہ علی گڈھ میں نواٸے سرمدی

آسمان علم و دانش پر خدا کے فضل سے

ہو علی گڈھ کے ستاروں کی درخشاں روشنی

قاٸم و دایم رہے اس کا یونہی علمی مشن

ایک فال نیک ہو برقی یہ اے ایم یو صدی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور