نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

The World Is Too Much With Us BY WILLIAM WORDSWORTH دنیا ہمارے ساتھ بہت زیادہ ہے۔ ولیم ورڈز ورتھ




 The world is too much with us; late and soon,        دنیا ہمارے ساتھ بہت زیادہ ہے۔ دیر سے اور جلد،

Getting and spending, we lay waste our powers;—    حاصل کرنا اور خرچ کرنا، ہم اپنی طاقتیں ضائع کرتے ہیں۔

Little we see in Nature that is ours;        ہم فطرت میں بہت کم دیکھتے ہیں جو ہمارا ہے۔

We have given our hearts away, a sordid boon!    ہم نے اپنے دلوں کو دے دیا ہے، ایک عجیب و غریب نعمت!

This Sea that bares her bosom to the moon;            یہ سمندر جو چاند تک اپنی سینہ کو ننگا کرتا ہے۔

The winds that will be howling at all hours,        وہ ہوائیں جو ہر وقت چلتی رہیں گی

And are up-gathered now like sleeping flowers;        اور اب سوئے ہوئے پھولوں کی طرح جمع ہو گئے ہیں۔
For this, for everything, we are out of tune;            اس کے لئے، ہر چیز کے لئے، ہم دھن سے باہر ہیں؛
It moves us not. Great God! I’d rather be            یہ ہمیں منتقل نہیں کرتا ہے۔ عظیم خدا! میں زیادہ پسند کروں گا۔
A Pagan suckled in a creed outworn;                ایک کافر نے ایک عقیدہ ختم کر دیا
So might I, standing on this pleasant lea,            تو کیا میں اس خوشگوار مقام پر کھڑا ہو سکتا ہوں،
Have glimpses that would make me less forlorn;        ایسی جھلکیاں ہیں جو مجھے کم اداس کر دے گی۔
Have sight of Proteus rising from the sea;                پروٹیوس کو سمندر سے اٹھتے ہوئے دیکھو۔**
Or hear old Triton blow his wreathèd horn.            یا بوڑھے ٹریٹن کو اپنی چادر والا ہارن اڑانے کی آواز سنیں۔


**ایک جراثیم جو جانوروں کی آنتوں اور مٹی میں پایا جاتا ہے۔
    

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور