نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دماغ کو کمپیوٹر اور جسم کو لوہا بنادینے والا فارمولہ

دماغ کو کمپیوٹر اور جسم کو لوہا بنادینے والا فارمولہ

جسمانی تھکن، دردوں کےلئے لاثانی .

 ھوالشافی:

نمبر 1۔ دیسی مرغی کے انڈے 12 عدد

2۔ کالےچنے بھنےہوئے 125 گرام

3۔الائچی چھوٹی سبز 3 گرام

4۔ میٹھے باداموں کی گریاں 125 گرام

5۔ پستہ 50 گرام

6۔ چاروں مغز 50 گرام

آدھا کلو دیسی شکر ہوجائے تو اس سے بہتر ہے۔

8۔ گوند پھَلائی 125 گرام(پنساری کو یہی چیز بتائیں تو وہ یہی گوند دے دے گا(

9۔ دودھ کا کھویا 250 گرام

10۔ دیسی گھی آدھا اکلو۔۔

یہ سب چیزیں اپ کم مقدار میں لے کر بھی بنا سکتے ہیں۔ ۔۔

بنانے کاطریقہ:

نمبر دو تا نمبر سات اشیاء کو خوب باریک پیس لیں اب ایک بڑے برتن میں انڈے توڑ کر پھینٹ لیں جب انڈے اچھی طرح پھٹ جائیں تو نمبر دو تا نمبر سات کا سفوف انڈوں میں ڈال کر اچھی طرح پھینٹیں۔ گوند پھَلائی کو علیحدہ پیس لیں۔ اب کسی بڑے برتن میں گھی کو آگ پر رکھیں۔ گھی جب سرخ ہو تو گوند پھَلائی کو ڈال دیں جب گوند پھَلائی کا رنگ سرخ ہو تو انڈوں والا مکسچر ڈال کر چمچ سے ہلاتے رہیں جب گھی علیحدہ ہونا شروع ہوجائے اور ہر چیز ریزہ ریزہ ہوکر علیحدہ نظر آنے لگے تو دودھ کا کھویا ٹکڑے ٹکڑے کرکے ڈال دیں اور اس کھوئے کو حلوے میں حل کریں حتیٰ کہ اتنا حل کریں کہ کھوئے کی سفیدی ختم ہوجائے اور اس کےا ندر کی نمی گھی میں جذب ہوکر کھویا بھی حلوے کی شکل اختیار کرلے۔تب اتار لیں حلوہ تیار ہے۔ ٹھنڈا کرکے صرف اور صرف شیشے کے مرتبانوں میں چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے ڈال کر محفوظ رکھیں صرف ناشتے کے وقت ایک چمچ رائس اسپون یعنی چاول والا گرم قہوہ یا دودھ پتی سے کھالیں انشاء اللہ بھولی ہوئی باتیں بھی یاد آجائیں گی جو پڑھا وہ بھی نہیں بھولے گا اور دماغ کو کمپیوٹر کردے گا۔نوٹ: یہ کمپیوٹر حلوہ اگرسردیوں میں کھائیںتو اس کا اثر عمر بھر رہے گا اس کو تالے میں رکھیں جس نے کھایا وہ چٹ کرجائے گا۔

قارئین اسے استعمال کرا کے دیکھیں میںخود اس کی تصدیق کررہی ہوں میں اپنے سالہاسال کے طبی تجربات و مشاہدات کو سامنے رکھ کر ایک بات کہتی ہوں یہ نسخہ واقعی ایک فولاد ہے ٹانک ہے اور بے بہا تحفہ ہے آپ ضرور استعمال کیجئے۔ مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

نوٹ: موسم سرما میں ہی استعمال کریں۔ موسم گرما میں نہ استعمال کریں۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو