نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گہیوں کی بالیاں مسرورتمنا

گہیوں کی بالیاں

مسرورتمنا

کیا جی آپا تمہارا فونچ نی 

آنا نہیں کیاتو بھی کرتے تم ھماری یاد نکو آتی کیا

اتی نا نسرین وہ کیا ہے.نا

ابھی وظیفہ کرتے بیٹھی 

باتاں ہوے تو چغلی ھوتی

فالتو میں اے شمشہ ذرا اچھی چایے بنا کو لا

بہت دن بعدمیری بہن آی سو 

کیا تو بھی کچن میں ناشتہ بستا

ہو وہ بھی لانا

شمشہ نےنہ کان میں آکر کہا

انڈے.کا پکوڑا بھی لاوں.کیا

ارے ہاں مری.لا نا

چاے پیتے ناشتہ کرتے صغرا بولی اپنی شرمین نے اچھی کری

چھوٹی کا سارا سونا گہنا لیکو 

بولی ھم سب کو لیے مر گیے

ہاں انہوں نے تسبیح ایک طرف رکھا انڈے کا پکوڑا منھ. میں ٹھونسا

ایسا بولے تو کوی گہنامانگنے نکو جاتا نا جی. نسرین

آماں دنیا سے بو ل کوگیے تم سب گہیوں کی بالیاں شریک رہنا

دیکھو سب بہنا کیسے دل میں نفرت لے کو غیبت کرتے

اللہ توبہ آپا تم تو وظیفے پر ھوتے اور مجھے بہو کے سو کام کرنے ھوتے دل کرتا مر جانا

واہ رے نسرین ایک بہنا سونا گہنا لیکو مر جانا بولتی اور تمہے

کاما دیکھ کو مرتے

آپا چلتی ہوں .ناشتہ نہیں ملا تھا

اس واسطے آی تھی 

برا نکو مانو

نسرین میرے لیے سب بہنا اب بھی گہیوں کی بالیاں وہ مسکرای جب دل چاھے آنا

تبھی فون بجا کیا صغر آپا

تمہاری لڑکی میری بہو بنکو نچا ریلی بھوکی بیٹھی صو بو سے

گھر کی شاپنگ کرنے.کو گی نہال کے ساتھ

ایک کام کر نجمہ میرے پاس آجا

کچھ دن رہ جا بتانا مت کے تو کہاں ہے دیکھتی میری بیٹی 

کو میں اچھے سے خبر لیتی

نجمہ کے.آتے ہی شمشہ نے ناشتہ دیا بتا کھانے میں کیا کھایےگی

اسکی اجڑی صورت دیکھ صغرا بولی

آپا کڑھی چاول کتنے دن سے بنانے جارہی

فریج میں بچا کھچا آن لاین کھانا دیکھ کر بھوک مر جاتی

اور دونوں مزے سے باہر کھا کو آتے ممی جی پہلے وہ کھانا کھاو

ویسٹ ھوگا نا

تبھی صغرا کا فون بجا ممی وہ ھماری ممی گھر پہ نہیں

آپ کے ادھر ہے کیا

صغرا نے نجمہ کو.مسکرا کر دیکھا

نہیں رے میرے گھر کیوں ایےگی

اور فون رکھ کر دونوں ھنس پڑیں 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو