نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مقابلہ کیا ہے۔ What is compition

مقابلہ کیا ہے۔

What is compition

 اس دارِ فانی میں مقابلے ہی مقابلے ہیں۔ مقابلہ اِس طالبِ علم سے اُس طالبِ علم کا، سائنس سے آرٹس کا، اردو سے انگریزی کا، اِس زبان کا اُس زبان سے، اِس نسل کا اُس نسل سے، اِس مذہب کا اُس مذہب سے۔ ہر طرف مقابلے ہی مقابلے ہیں، اِن مقابلوں کی کوئ انتہا نہیں ہے۔ جہاں تک تعلیمی مقابلہ ہے، یہ دُنیا اس بات کی شاہد ہے کہ دُنیا کی بہترین ایجادیں اور دریافتیں امتیازی نشانات حاصل کرنے والے دماغوں کی اختراع نہیں ہیں۔ خصوصاً طلبہ کو ایسی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے جو اُن کی زبان نہیں ہے۔ جی ہاں میرا مطلب انگریزی میڈیم اسکولس سے ہے۔ انگریزی میں دو جملے بول لینے کا مطلب تعلیمیافتہ ہونا نہیں ہے۔ آج کل نظامِ تعلیم ہی کچھ ایسا بنادیا گیا ہے کہ بچوں میں تحقیقی، تنقیدی اورتخلیقی سوچ کی پذیرائ نہیں ہوتی بلکہ ہر طالبِ علم کا ایک نمبر اور ایک مقام ہو تا ہے۔ یقین کریں ہمارے طلبہ کوئ قیدی سے کم نہیں ہیں اور اسکولس قید خانے ہیں جہاں بچوں کو ذہنی قیدی بنادیا جاتا ہے۔ کھلی فضا دلکش ماحول میں اُنہیں پھلنے پھولنے سے روکا جاتا ہے۔ سماجی تعلیم تو دی جاتی ہے، لیکن سماج سے دور رکھ کر۔ نباتیات کا درس دیا جاتا ہے مگر نباتات سے دور رکھ کر۔ بس ہمارے طلبہ قید خانوں میں بند رہتے ہیں، کبھی اسکول کی جماعتوں میں یا ٹیوشن کے کمروں میں، کوچنگ سنٹرس یا پھر کالج کی چاردیواریوں میں مقیّد رہتے ہیں۔ قیدیوں کی طرح ان کے درجات و نمبرات بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان کو ذہنی قیدی نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ جہاں خودی کی پرواز کو زمین دوز کردیا جاتا ہے۔ یہ نہ تو خود سے سوچتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ جتنا اُن کو سیکھا دیا جاتا ہے اُتنا ہی رٹنا ہے۔ اُن کو اپنی سوچ سے سوچنے کی اجازت نہیں۔ بس ایک نصاب ہے جس کو وہ مکمل کررہے ہیں۔ انگریزی مدارس کی تو اور بھی بُری حالت ہے۔ یہاں کے بچے تو بغیر سوچے سمجھے کتابوں سے لے کر تقاریر تک حفظ کر لیتے ہیں۔ اگر اُن سے انٹرویو میں ایک عنوان دے کر کہا جائے دس منٹ کیلئے اِس عنوان پر بات کریں تو انگریزی میڈیم کی ساری پول کھُل جائیگی۔ دوسری بات جو خطیب صاحب کی اچھی لگی، وہ ہوادار، سبزہ زار اور پُر کیف قدرتی ماحول میں بیٹھ کر روشن خیالی سے بات کر رہے ہیں۔ ساری گفتگو نہایت شستہ اردو میں کی جارہی ہے جس کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ 


ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ہمیں دُنیاوی علوم حاصل کرتے ہوئے اور دین پر چلتے ہوئے نفسِ امارہ کو مار کر دلوں پر حکومت کرنی ہوگی۔ علمِ حکمت میں خودداری و خودی کی صلاحیتوں کو عروج دینا ہوگا۔ ہمارے اسلاف کی طرح جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا ہونا ہوگا۔ 


ڈاکٹر قاضی سراج اظہر

اسوسیٹ کلینکل پروفیسر

مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی۔ امریکہ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو