نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

نومبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Hindi Editorial of Biswas November 2022

Hindi Editorial of Biswas November 2022 चीन से कुछ निराशाजनक खबरें आ रही हैं। यह विश्व शांति और स्वतंत्रता के लिए बढ़ता खतरा है। इसके प्रति हमें सतर्क रहने की जरूरत है। चीन में कोरोना के बढ़ते मामलों की खबर गर्म है। फिर से लॉकडाउन और सोशल डिस्टेंसिंग है। तमाम शोधों और तमाम प्रयोगों के बावजूद ये न्यू वर्ल्ड ऑर्डर के पुजारी अपनी चाल नहीं रोक रहे हैं। वे नई विश्व व्यवस्था की स्थापना के अपने लक्ष्य की ओर पूरी ताकत से बढ़ रहे हैं। भले ही उनका पर्दाफाश हो गया हो। और उनकी सारी साजिशें दुनिया के सामने आ गई हैं। कुछ देशों ने इसे समझा है और कुछ ने नहीं और वे लगातार इनके जाल में फंसते जा रहे हैं।  

اداریہ editorial of biswas 30 november 2022

اداریہ editorial of  BISWAS 30 November 2022 چین کی جانب سے کچھ مایوس کن خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ یہ دنیا کے سکون اور آزادی کی  طرف بڑھتا ہوا بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس سے ہمیں چوکننا رہنے کی ضرورت ہے۔ چین میں کورونا کے معاملات کے بڑھنے کی خبریں گرم ہیں۔ وہاں پھر سے لاک ڈون اور سماجی دوری قائم کی جارہی ہے۔ اتنی ریسرچ اور تمام تر تجربات کے باوجود یہ نیو ورلڈ آرڈر کے پجاری اپنی چالوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ وہ اپنے مقصد یعنی نیوورلڈ آرڈر کو قائم کرنے کی طرف پوری طاقت سے بڑھ رہے ہیں۔  اس کے باوجود بھی کہ یہ ایکس پوز ہوچکے ہیں۔ اور ان کی تمام تر سازشیں دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ کچھ ممالک نے اس کو سمجھ لیا اور کچھ نے نہیں سمجھا اور یہ ان کے جال میں مسلسل پھنستے جارہے ہیں۔  

اقبال کی غزل گوئی کے چند انفرادی پہلو Some individual aspects of Iqbal's ghazal poetry

اقبال کی غزل گوئی کے چند انفرادی پہلو  Some individual aspects of Iqbal's ghazal poetry اردوغزل پر حالی کی سخت ترین تنقید کے باوجود اس صنف کا نہ تو مملکت شعر سے دیس نکالا ہوسکا اور نہ ہی شائقین ادب کے درمیان اس کی مقبولیت میں کمی آئی۔اردو کی شعری روایت میں بارہا ہدف ملامت بننے کے باوجود یہ صنف آج بھی نہ صرف اپنی جلوہ سامانی سے ایوان شاعری کو درخشندگی عطا کر رہی ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے یہ دنیا کی ان زبانوں کی شاعری کے مابین امتیازی شان کی حامل ہے جن کا حوالہ دینے کا رواج اردو تنقید میں ایک فیشن کے طور پر رائج ہو چکا ہے۔اردو غزل کا تخلیقی سفر جن مراحل سے گزر کر عصر حاضر تک پہنچا ہے اس میں ایک طبقہ ان شعرا کا ہے جو غزل کے روایتی مضمون کے اسیر رہے اور فکر و خیال کی سطح پر کسی جدت کو برتنے سے اجتناب کرتے رہے۔ایسے شاعروں کو بجا طور پر حالی کی زبان میں اسلاف کے چبائے ہوئے نوالوں کی جگالی کرنے والے شعرا کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی غزل کی دنیا میں ایسے شاعر بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس صنف کو موضوع و معنی کے نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ اقبال کا ش

اقبال کی غزل گوئی کی خصوصیات

اقبال کی غزل گوئی کی خ صوصیات  Characteristics of Iqbal's poetry علامہ اقبال سے قبل غزل اور " اقبال کے تغزل کا   اسلوب " کے موضوع عشق ومحبت کے حوالے سے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ واردات قلب کو اولیت حاصل تھی کیونکہ انسانی تہذیب نیت تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ رہا ہے۔ محبوب سے محبت کر کے اور اس محبت کو رچا اور سنوار کے اپنی زندگی کو رجھاتے اور سنوارتے ہیں ۔ اسی کیفیات میں خواجہ حافظ اور غالب کے نام بلند ترین معیار پر ہیں۔ اگرحسن وعشق کے حوالہ نے دیکھے تو اقبال کی غزلوں میں یہ چیزنہیں ہے۔ کیونکہ اقبال نے غزل کی فکری و پانی دنیا میں ایک اور عظمت تازگی جدت اور خوشگوارلیت پیدا کر دی۔ اقبال نے مجازی محبوب کے لب و رخسار تروگیسٹرنگ حنا اور شری گفتاری کی بجائے حقیقی محبوب سے خطاب کیا ہے۔ اس کے علاوه شاعرانہ انداز میں اپنے افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ مثال انہوں نے اپنی غزلوں میں تصوف فقر درویشی است معاشرت مرد مومن تاريخ انت قلفیلم الکلام جیسے موضوعات کو غزلوں میں سمودیا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ۔  

اقبال کا کارنامہ اردو نظم میں Iqbal's achievement in Urdu poetry

اقبال کا کارنامہ اردو نظم میں Iqbal's achievement in Urdu poetry             نظم کی اصطلاح پہلے تو شاعری کے لئے استعمال ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں نثر کو رکھا جاتا تھا۔ پھر یہ غزل کے علاوہ شاعری کی دوسرے اقسام کے لئے استعمال ہونے لگی مگر جدید تناظر میں نظم وہ صنف سخن ہے جو نہ قصیدہ ہے نہ مثنوی، نہ مرثیہ، نہ شہر آشوب، نہ واسوخت، نہ رباعی۔ ایک صنف سخن کی حیثیت سے یہ نظیر اکبرآبادی کے یہاں نمایاں ہے اور آزاد اور حالیؔ کے زمانے سے اس کی روایت کا استحکام ہوتا ہے۔ یہ مخصوص صنف نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی مخصوص ہیئت ہے۔ چنانچہ ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، قطعہ، مسمط (جس میں مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع، معسر کی ہئیت شامل ہیں) اور اس کے علاوہ مثنوی یا غزل کی ہیئت میں نظمیں اور انگریزی ادب کے اثر سے نظم معریٰ اور آزاد نظم، سانیٹ، ترایلے، ہائیکو اور اب نثری نظم بھی اس ذیل میں آتی ہیں۔             نظم کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں غزل کے مقابلے میں ایک موضوع اور ایک مسلسل بیان ہوتا ہے۔ مسلسل بیان کی وجہ سے اشعار میں ربط اور تسلسل آجاتا ہے۔ کلیم الدین احمد نے نظم کے

علامہ اقبال کا عہد اورماحول

علامہ اقبال کا عہد اورماحول Allama Iqbal's era and environment صدیقی ثمینہ بیگم انچارج پرنسپل  و    صدر شعبہ اردو ڈاکٹر بدرالدین سنیئر کالج،جالنہ ،مہاراشٹر              علامہ اقبالؔ کی جس عہد میں نشو نما اور پرورش و پروخت ہوئی وہ پورے طور سے غلامی کا عہد تھا ۔ انگریزیوں کا  پورے ملک پر تسلط و قبضہ تھا انھوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لئے ظلم و جبر برداشت کے ناروافعل کو روارکھا تھا جس سے ہندوستان کی ہر قوم ظلم و جبر برداشت کرنے پر  مجبور تھی۔ انھوں نے چونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے وہ خاص طور سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ تاریخی تہذیبی علمی اور معاشرتی ہر لحاظ سے وہ مسلمانوں کو زک پہونچا رہے تھے اس لئے وہ تعلیم اور خاص طور سے جدید تعلیم سے مسلمان نا آشنا تھے۔ اس لئے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے انھیں ایک طرف اپنے تشخص و امتیاز کو باقی رکھنے کی فکر لاحق تھی۔ تو دوسری طرف ظلم و جور سے نبرد آزمائی کرنی تھی۔ قدیم تعلیم اپنا اثر کھوتی جا رہی تھی اس لئے انھیں اپنی تہذیب و معاشرت اور رہن سہن میں مذہبی قدروں کے تحفظ کا مسئلہ بھی در پیش تھا۔  حقیق

*بحث مت کیجیے* *Speak only* when you feel *your words* are *better than* the silence

 *بحث مت کیجیے*  *Speak only* when you feel *your words* are *better than* the silence. *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ *ردا فاطمہ* گلوبل ہینڈز  کہا جاتا ہے کہ کسی جنگل میں ایک گھوڑے اور گدھے کے بیچ زور دار بحث چِھڑ گئی۔ اور انکا موضوع سخن تھا آسمان کارنگ ۔ گھوڑا کہتا کہ آسمان نیلا ہے اور گدھا کہتا کہ آسمان کالا ہے گھوڑا اسے بار بار سمجھاتا رہا لیکن گدھا بضد ہوگیا کہ نہیں آسمان کالا ہے۔ *بالآخر دونوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم جنگل کے بادشاہ سے پوچھ لیتے ہیں۔  دونوں اپنا مسٸلہ لے کر شیر کے پاس پہنچ گٸے اور شیر کو پورا ماجرا سنایا تو شیر نے فیصلہ دیا کہ. *گھوڑے کی بات صحیح ہے* آسمان کا رنگ نیلا ہی ہے اور پھر گھوڑے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ گھوڑے کو سزا دی جائے تو گھوڑے نے حیرت میں آکر شیر سے کہا کہ جناب صحیح بھی میری بات ہے اور سزا بھی مجھے ہی... کیوں؟؟؟؟؟؟  *تو شیر نے کہا کہ تمھاری غلطی یہ ہے کہ تم نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ گدھا ہے وہ بیوقوف ہے تو اس کے ساتھ بحث کیوں کی* ۔ یہ مختصر کہانی ہماری پوری زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس پر ہم بہت کم غور کرتے ہیں ۔

رول ماڈل والدین* *بچّہ عکسِ والدین*

*رول ماڈل والدین* *بچّہ عکسِ والدین*  *عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری* -------------------- "اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، الله کے نزدیک یہ بڑی نا پسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو ." (الصف:14) بچّے ہمیشہ اپنے والدین کی نقل کیا کرتے ہیں ۔ Children always copy their PARENTS جیساوہ دیکھتے، سنتے ہیں ویسا ہی بولتے، سوچتے اور عمل کرتےہیں۔ ہمارا دماغ وہی لوٹاتا ہے جو ہم اس کے اندر ڈالتے ہیں۔یوں ہماری موجودہ حالت ہمارےماضی کی سوچ کا نتیجہ ہے۔اور"مستقبل میں ہم وہی ہوں گے جو آج سوچ رہے ہیں"۔ انسانوں کے پروردگار نے انسان کو فطرتاً کچھ بنیادی جبلّتوں اور صلاحیتوں سے آراستہ کر کے دنیا میں بھیجا ہے۔ان میں انفرادی، اجتماعی، خاندانی، سماجی ،خودتوقیری، خود سپردگی نفرت، رحم، رنج وغم، اثر پذیری، اثر آفرینی، ہمدردی، تقلید، تجسس، استعجاب، فرار، تعمیریت، بھوک، شہوت، شفقت وغیرہ شامل ہیں۔  ہماری یہ زندگی کچھ لو اور کچھ دو، سیکھو اور سکھاؤ کا عملی نمونہ ہے۔ بچوں پر کھلتی ہوئی دنیا کا نرالاا اور دلچسپ اثرجدیدٹیکنالوجی،انٹرنیٹ ہے۔ سات، سُروں کی آگ ہے آٹھویں سُر کی

Literary Background of Gulbarga Part -5 last || گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 5 آخری کڑی

Literary Background of Gulbarga Part -5 last || گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 5  آخری کڑی              درجہ بالا فنکاروں میں حمید الماس اور راہی قریشی دو ایسے قلمکار ہیںجنہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ حمید الماس نظم کے شاعر ہیں تو راہی قریشی غزل کے۔ کئی رسائل و جرائد میں ان کی غزلیں شائع ہوتی تھیں۔ ان کے تین شعری مجموعے ”صحرا کا سفر، ضمیرشب، دیدہ   بے خواب“ شائع ہوچکے ہیں۔  

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 4 || Literary Background of Gulbarga Part -4

 گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 4 || Literary Background of Gulbarga Part -4             انجمن ترقی پسند مصنفین کا اردو ادب کی ترقی میں اہم رول رہا ہے۔ 1936ءکے بعد ہندوستان کے کئی شہروں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کئی شاخیں قائم ہوئیں۔ گلبرگہ میں ترقی پسند افکار کو لئے آگے بڑھنے والوں میں ابراہیم جلیس، سلیمان ادیب، محبوب حسین جگر، عابد علی خان اور سلیمان خطیب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آزادی کے چند سال بعد شعراءاور ادباءنے انجمن کے تحت نثری و شعری اجلاس منعقد کئے۔

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ 3 || Literary Background of Gulbarga Part - 3

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ 3 || Literary Background of Gulbarga Part - 3               کسی زبان کی ترقی و ترویج کیلئے حکومت کی سرپرستی ضروری ہے تب تک یہ فروغ نہیں پاتی۔ بہمنی سلطنت نے اپنا پایہ    تخت تبدیل کرنے کے سبب گلبرگہ اپنی ادبی اہمیت کھوچکا تھا اور یہاں کی ادبی فضا ماند پڑگئی تھی۔ احمد شاہ نے 1429ءمیں پایہ تخت گلبرگہ سے بیدر منتقل کیا تو اس کے امرائ، ادبائ، دانشور، اہل علم، شعراءوغیرہ بھی بیدر منتقل ہوگئے۔ اس طرح گلبرگہ کا ادبی منظرنامہ ابرآلود ہوگیا۔ کچھ شعری و نثری تصنیف بھی ہوئی اس پر گمنامی کے پردے پڑ گئے۔             عہد بہمنی میں گلبرگہ اور بیدر میں ان سلاطین کی زیر نگرانی قدیم اردو یا دکنی بحرہ عرب سے خلیج بنگال تک پھیل گئی۔ گلبرگہ ،بیدر، گولکنڈہ، احمد نگر، بیجاپور، بودھن، چن پتن، میسور، کڑپہ، مدراس اور اورنگ آباد وغیرہ دکنی کے اہم مراکز بن گئے۔ 1590ءمیں بہمنی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے ٹکڑے ہوگئے۔ گولکنڈہ اور بیجاپور دکن کے بڑے ادبی مراکز بن گئے۔ گلبرگہ 1686ءتک مملکت بیجاپور جو عادل شاہوں کا مرکز تھا اس میں شامل رہا۔ اس دور میں ہمیں دو نام تایخ ادب میں ملتے ہیں

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 2 || Literary Background of Gulbarga part 2

continued  گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 2 || Literary Background of Gulbarga 2              ” فیروزشاہ کا دور حکومت اصل میں اس نشاة ثانیہ کا تسلسل تھا جس کا محمود شاہ نے آغاز کیا تھا۔ فرشتہ کا خیال تو یہ ہے کہ فیروز شاہ کی علمیت محمد بن تغلق سے کہیں زیادہ تھی اسے تفسیر، فقہ، طب، اخلاق، فنون ہندسہ و ریاضی اور فلسفہ سے دلچسپی تھی گو یا اس کا دماغ اس کے اپنے الفاظ میں آسمان فرہنگ تھا۔ (طیب انصاری)۔             وہاب عندلیب نے بھی فیروز شاہ کی علم دوستی اور ادب پروری پریوں اظہار خیال کیا ہے۔             ” بہمنی سلاطین میں فیروز شاہ بہمنی بہ لحاظ علمو دانش بلند درجہ پر فائزتھا۔ وہ کئی زبانیں جانتا تھا۔ فارسی کے علاوہ اس نے دکنی میں بھی شعر کہے ہیں۔ فارسی یں عروجی اور دکنی میں فیروز تخلص کرتا تھا“۔                     فیروز شاہ ایک ادیب، شاعر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کا دلدادہ تھا۔ طیب انصاری اس کی یہی خوبی یوں بیان کرتے ہیں۔

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 1 ||Literary Background of Gulbarga part - 1

گلبرگہ کا ادبی پس منظر               شہر گلبرگہ ہندوستان کی ایک سابقہ ریاست حیدرآباد دکن کا ایک تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے عظیم شہر ہے۔ دکن، ہند کے اس علاقے کو کہتے ہیں جو دریائے نربدا اور بندھیاچل پہاڑ کے جنوب میں واقع ہے جس کو شمالی میدانی علاقہ بھی کہتے ہیں۔ اس شمالی میدانی علاقے کو دریائے گوداوری اور دریائے کرشنا اور ان دونوں کی معاون ندیاں سرسبز و شاداب کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔ دکن کے دریا مغرب سے مشرق کی طرف بہتے ہیں اور ان میں سے دو گوداوری اور کرشنا سمندر سے جاملنے سے پہلے ڈیلٹا بناتے ہیں۔

درد کا شافی یونانی علاج||A healing remedy for pain In Unani System of medicine

  درد کا شافی یونانی علاج A healing remedy for pain In Unani System of medicine حکیم  شاہدبدر فلاحی(علیگ) فن علاج میں۔ وجع۔ و الم۔کو اولین اہمیت دی جاتی ہے۔ درد سے تڑپتا ہوا مریض جب مطب میں آتا ہے، تو اسکی اضطرابی کیفیت طبیب سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ مریض کو تڑ پادینے والی صورتحال سے نجات دلائے۔ اردو میں درد کا لفظ " ـ و جع” اور” الم” دونو ں پر محیط ہے۔ انگریزی میں اسکے لئے عام طور پر لفظ pain کا استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح کے درد۔ و۔الم۔ پر مجھے آج گفتگو کرنی ہے، وہ ہے وجع المعدہ۔ (معدے کا درد)۔ سنگ مرارہ کی وجہ سے، جگر کا درد، سحج و مغص۔حصاۃ ورمل کی وجہ سے، درد گردہ، قو لنج، ورم زائدہ اعور کی وجہ سے شدید درد ــ ۔۔وغیرہ اور ان کا شافی یونانی علاج۔ وجع المعدہ: معدے کے درد کے کئی اسباب ہیں۔ لیکن صرف اس درد سے بحث ہے جسکا سبب ریاح ہو، سحج ومغص۔سحج آنتوں کی اندرونی سطح کے چھل جانے کو کہتے ہیں۔ درد کا احساس تو تمام اقسام سحج کی مشترک علامت ہے۔سحج اگر بالائی آنت میں ہے، تو درد ناف کے پاس اور ناف کے اوپر محسوس ہوتا ہے۔ خون اور دوسری لیسدار رطوبتیں پاخانہ کے ساتھ خارج ہوتی ہیں۔

طب یونانی: امراض جلد و تزئینیات میں ایک بہترین متبادل طریقہ علاج||Greek medicine: an excellent alternative treatment in dermatology

  طب یونانی: امراض جلد و تزئینیات میں ایک بہترین متبادل طریقہ علاج Greek medicine: an excellent alternative treatment in dermatology حکیم محمد شیراز امراض جلد اور تزئینیات وقت کا سلگتا  ہوا موضوع ہے۔ اکثر خواتین اس  سے متعلقہ عوارضات سے دوچار رہتی ہیں۔ بسا اوقات یہ مرض مختلف قسم کے نفسانی عوارضات کا سبب بنتا ہےبلکہ بعض خواتین جو ان امراض  میں  مبتلاہیں  ان  میں خود کشی کا رجحان  بھی دیکھا گیا ہے۔ بھارت میں امراض جلد کا وقوع کل آبادی کا  ۱۰ ؍سے ۱۲ ؍فیصد ہے۔ جس میں زیادہ تر افراد دا٫الصدف اور  نار فارسی میں مبتلا پائے گئے۔ طب جدید میں امراض جلد کے تحت بہت سی ادویہ اور اسٹیروئیڈس کا استعمال ہوتا ہے جو مضرات سے مبرا نہیں۔ تاہم  اب لوگ کسی متبادل علاج کے خواہاں ہیں۔ اطبائے متقدمین نے جا بجا امراض جلد کے تحت مختلف معالجات کا تذکرہ کیا ہے۔ جن کا استعمال آسان نیز سستا ہے۔ مشہور امراض جلد  یہ ہیں، برص، کلف، نمش، نار فارسی، بہق ابیض و اسود، خیلان، آتشک، سوزاک، دا٫الصدف، حکہ، جرب وغیرہ برص: leprosy وہ سفیدی ہے جو ظاہر بدن میں نمودار ہوتی ہے۔ اکثر بعض اعضا میں نمودار ہوتی ہے اور بعض م