نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پہلے اپنے دل کا آٸینہ صاف کیجیے* When *You Blame* And *Criticize* Others* *You* Are *Avoiding* Some *Truth* About *Yourself* .

*پہلے اپنے دل کا آٸینہ صاف کیجیے* 

 When *You Blame* And *Criticize* Others*

 *You* Are *Avoiding* Some *Truth* About *Yourself* .

 *ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیابی کے راز* سے انتخاب *مسکان رومی* اسلام آباد پاکستان

 *ﺍﯾﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺟﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﺌﮯ پڑوسی آ کررہنے لگے-اس جوڑے کے گھر کی کھڑکیوں سے نٸے آنے والے ﭘﮍﻭﺳﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺻﺎﻑ دیکھاٸی دیتاﺗﮭﺎ۔* یہی وجہ تھی اس جوڑے کی بیوی ان کے گھر تانک جھانک کیے رکھتی اور گاہے بگاہے اس گھر کے مختلف معاملات پر اپنے شوہر کو خبر بھی دیتی اور بلا روک ٹوک تبصرہ بھی کرتی۔ *ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺟﺐ یہ دونوں میاں بیوی ناشتے میں مشغول تھے تو سامنے گھر کی خاتون نے کپڑے دھو کر تاروں پر ڈالے* ۔ بیوی کی نظر کپڑوں پر پڑی تو تبصرہ کرتے ہوۓ کہنے لگی یہ کیسے لوگ ہیں کپڑے بھی صحیح سے نہیں دھونے آتے ۔ابھی تک گندے ہی کپڑے تار پر ڈال دٸیے ہیں۔ شوہر بیوی کی ایسی باتوں کو اگنور کر دیا کرتا ۔ *کچھ دن گزرے پھر ایسا ہی ہوا تو عورت نے اپنے شوہر سے اس پر تبصرہ کیا کہ دیکھیں کیسے لوگ ہیں ابھی تک ان کو کپڑے دھونے نہیں آتے۔* کیسے گندے لوگ ہیں ۔انہیں چاہیے یا تو کچھ خرچہ کر کے اچھا صابن لے آٸیں یا کسی عقل مند سے کپڑے دھونا سیکھ لیں ۔خیر شوہر نے معمول کی مسکراہٹ بکھیری اور ناشتہ کرنے لگا۔ *اب جب بھی پڑوسی کپڑے دھوتے تب ہی یہ خاتون ایسے مبالغہ آمیز تبصرے کرتیں اور شوہر ہر دفعہ معمول کی مسکراہٹ بکھیر کر دفتر چلا جاتا۔* کافی دنوں بعد ایک صبح پھر ایسا ہوا لیکن اس مرتبہ تبصرہ نگار خاتون کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا کہ یہ کیا آج تو انہوں نے بڑے صاف کپڑے دھوۓ ہیں۔ آج تو لگتا ہے کسی سے کپڑے دھونا سیکھ لیا ہے یا صابن اچھے والا لے آۓ ہیں۔ او ہو آپ دیکھیں نہ ۔ *شوہر کو متوجہ کرتے ہوۓ وہ خاتون بولے جا رہی تھی۔ شوہر نے سکوت توڑا مسکرایا اور کہا آج صبح میں جلدی اٹھ گیا تھا تو میں نے اپنی کھڑکی کا شیشہ صاف کر دیا جس سے تم پڑوسیوں کے گھر دیکھتی ہو"* جی ہاں یہ کہانی انسان کی مکمل زندگی کی عکاسی ہے ناکامی کی علامات میں سے بے جا تنقید کرنا بھی شامل ہے ۔ *ہم اپنے دل کے آٸینے سے گرد صاف نہیں کرتے اسی لیے لوگ ہمیں میلے عیب دار خراب بے عقل نظر آتے ہیں ۔* پٹی ہماری آنکھوں پر بندھی ہوتی ہے اور ہم دوسروں کو اندھیرے میں سمجھتے ہیں ابھی ہماری عقل اور سوچ پختہ نہیں ہوٸی ہوتی ہم دوسروں کوکم عقل اور کند ذہین سمجھ رہے ہوتے ہیں *۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ یرقان کا مریض جس کی آنکھیں بیماری کی وجہ سے پیلی ہو چکی ہوتی ہیں اسے ساری دنیا ہی پیلی نظر آتی ہے ہر چیز زرد نظر آتی ہے ۔* ہم لوگوں کا فی زمانہ سب سے بڑا مسٸلہ یہ ہی ہے کہ ہم خود سکون سے جی نہیں رہے ہوتے اور دوسروں کی زندگی کے مساٸل کو موضوع بحث بنایا ہوتا ہے کبھی بیٹھ کر اپنے عیبوں اور کمی کجیوں کی فہرست نہیں بناٸی دوسروں کا لمحہ لمحہ نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ *یہی وجہ ہے ہماری زندگیاں بے سکون ہوٸی پڑی ہیں ہر شخص دوسرے کے عیبوں کی تلاش میں ہے اور اپنے گناہوں کو سرشت آدم سمجھ کر ٹال رہا ہے* اپنی آنکھوں کی کھڑکی کے سامنے سے افسانے گمان خوش فہمیاں تکبر اوور کانفیڈینس جییسی پٹیاں اتارنا ہوں گی تبھی ہی زندگی کا لطف لیا جا سکتا ہے ورنہ یہ عیوب ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے ۔ اصلاح کا سفر اپنے آپ سے اپنے اندر کی تبدیلی سے شروع ہو گا *دوسروں میں جھانکنے سے پہلے اپنے من میں جھانکیے* ۔ جب اپنا آٸینہ صاف ہو گا تو ہر چیز صاف دیکھاٸی دے گی ۔سب بندے اچھے دیکھاٸی دیں ۔


https://www.sheroadab.org/2022/11/ When You Blame And Criticize Others You Are Avoiding Some Truth About Yourself ..html

 . 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو