نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 4 || Literary Background of Gulbarga Part -4

 گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 4 || Literary Background of Gulbarga Part -4

            انجمن ترقی پسند مصنفین کا اردو ادب کی ترقی میں اہم رول رہا ہے۔ 1936ءکے بعد ہندوستان کے کئی شہروں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کئی شاخیں قائم ہوئیں۔ گلبرگہ میں ترقی پسند افکار کو لئے آگے بڑھنے والوں میں ابراہیم جلیس، سلیمان ادیب، محبوب حسین جگر، عابد علی خان اور سلیمان خطیب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آزادی کے چند سال بعد شعراءاور ادباءنے انجمن کے تحت نثری و شعری اجلاس منعقد کئے۔

            برصغیر کے طنز نگاروں میں ابراہیم جلیس کا شمار ہوتا ہے۔گلبرگہ میں ابراہیم جلیس کے دور کو اردو نثر کا تابناک دور کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ان کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کی بھی ادبی خوبیاں ابھریں۔ ابراہیم جلیس جو گلبرگہ کلب سے وابستہ تھے، بین الاقوامی شہرت حاصل کی جو بنیادی طور پر ادیب تھے اور ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ شہر گلبرگہ کی ایک قد آور شخصیت ابراہیم جلیس ہے۔ ابراہیم جلیس نے بحیثیت افسانہ نگار، خاکہ نگار، صحافی، طنز و مزاح نگار بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ رپورتاژ کے علاوہ ایک ناول ”چوربازار“ بھی تحریر کیا۔ پاکستان منتقل ہوگئے اور دو درجن کتابیں چھوڑی ہیں۔ مخدوم محی الدین اور ابراہیم جلیس کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی بنا پر یہاں کے کچھ شعراءاور ادباءاس تحریک سے متاثر ہوئے اور یہ ترقی پسندی کا دور گلبرگہ میں پورے شباب پر تھا۔ پولیس ایکشن کے بعد ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت و حقارت کے جذبات حد سے زیادہ بڑھ گئے اس کو ختم کرنے کیلئے پریم چند سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد آپس میں اتحاد پیدا کرنا تھا۔

            1948ءکے پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد دکن کو ہندوستان میں شامل کرلیا گیااس کے ساتھ ہی یہاں کی کئی قدآور شخصیتوں نے ترک وطن کر کے پاکستان کو اپنا وطن ثانی بنالیا۔ پولیس ایکشن ایک سانحہ سے کم نہ تھا۔ یہاں پر جو ادبی بہاریں تھی وہ بربادی میں تبدیل ہوگئیں اور کئی خاندان خاص کر مسلمان خاندان برباد ہوگئے ہرطرف فساد برپا تھا کئی مسلمانوں کو شہید کردیا گیا اور کئی خواتین کی آبروریزی کی گئی جس کے سبب ان خواتین نے موت کو گلے لگالیا۔ 1948ءکو ہندوستانی فوج حیدرآباد میںداخل ہوکر سلطنت آصفیہ کا خاتمہ کرگئی۔ جس سے نہ صرف سیاسی تبدیلی آئی بلکہ ادبی، تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے ایک بھونچال برپا ہوگیا جس سے کچھ وقفہ کیلئے یہاں کی ادبی فضا ماند پڑ گئی۔ سقوط حیدرآباد کے بعد کئی ادبی شخصیات نے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوگئیں جن میں ابراہیم جلیس، نیاز گلبرگوی، فضل گلبرگوی وغیرہ شامل ہیں۔ فضل گلبرگوی کا مجموعہ کلام ”روئے گل“ اورنیاز گلبرگوی کا مجموعہ کلام ”حرف وفا“ کی اشاعت عمل میں آئی۔ کچھ شاعر اور ادیب نے شعر وا دب کی آبیاری میں مصروف رہے ان میں رضی اختر شوق، سعید الدین سعید، خواجہ اعجاز، عزیز اقبال، رزاق مکیش وغیرہ اہم ہیں۔

            ترکِ وطن کے بعد بھی کئی فنکاروں نے گلبرگہ کا نام زندہ رکھا اور ادب کی آبیاری کرتے رہے۔ ان میں فضل گلبرگوی، نیاز گلبرگوی اور عثمان صحرائی شامل ہیں۔ فضل گلبرگوی کا شعری مجموعہ ’روئے گل‘ 1982ءمیں گلبرگہ ہی سے شائع ہوا۔نیاز گلبرگوی بھی جسمانی طور پر نہ صحیح روحانی طور پر گلبرگہ کی سرزمین سے جڑے رہے۔ ویسے نیاز گلبرگوی کی ادبی زندگی کا آغاز بیک وقت شعری و افسانہ نگاری سے ہوا۔ نیاز گلبرگوی کا پہلا شعری مجموعہ ”حرف وفا“ 1983ءمیں گلبرگہ ہی سے شائع ہوا اسی شہر میں اس کی رسم اجرائی ہوئی جس سے ان کے اس شہر سے لگاو اور خلوص کا اندازہ ہوتا ہے ان کا دوسرا شعری مجموعہ ”حرف نیاز“ 1999ءمیں پاکستان کراچی سے شائع ہوا۔

            گلبرگہ کے ممتاز دلنواز شخصیت سلیمان خطیب کی ہے۔ شور عابدی اور سلیمان خطیب نے اپنی مٹی سے بچھڑنے کا درد برداشت کرنے کی جرا


¿ت نہ کرتے ہوئے یہیں رہے اور اس مٹی کا حق ادا کرتے رہے۔ انہوں نے ترک وطن نہیں کیا سلیمان خطیب کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے شعری مجموعہ ” کیوڑے کا بن“ کو ملک گیر شہرت حاصل ہے۔ ان کے اعتراف خدمات جو سن 1975ءکو ہوا اس میں ان کا مجموعہ کی رسم اجرائی ہوئی۔ ایک واحد شعری مجموعہ ہے جس کے اتنے ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔ بقول وہاب عندلیب۔

            سلیمان خطیب یادگار ٹرسٹ سے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں“۔

            1948ءکے بٹوارے کے بعد زخم تھورے مندمل ہوئے حالات تھوڑے معمول پر آرہے تھے تب 1952ءمیں ٹاون ہال میں ایک کل ہند مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا اس میں کئی قومی و مقامی شعراءنے حصہ لیا۔ جس میں مجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی اور جگناتھ آزاد وغیرہ شامل تھے ۔

            لسانی بنیادوں پر ریاستوں کو تقسیم کیاگیا۔ نومبر 1956ءکو گلبرگہ ریاست کرناٹک میںشامل کیا گیا۔ اور ایک نئی پیڑی اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھائے ادب کی آبیاری کررہی تھی۔ 1960ءتک جن بزرگ شعراءو ادباءاپنے فن کے ذریعہ اس میں چار چاند لگارہے تھے۔ ان میں حافظ عبدالرشید، عبدالباقی رنگین، عثمان صحرائی، غلام علی اثر، فتح محمد فاتح، مختار ہاشمی، قمرالدین انصاری، منہاج الدین شوکت، سلیمان خطیب، سید احمد حسین، طالب سہروردی، احمد حسین قادری، سید مجیب الرحمن، شورعابدی، غلام حسین،عبدالستار خاطر، مبارزالدین رفعت، ڈاکٹر مدنا منظر، عاقل علی خاں، صابر شاہ آبادی، ساحل، سرور مرزائی، عبدالرحیم آرزو، حسام الدین فاضل، رشید احمد رشید وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

            شور عابدی اپنے وقت کے بہترین غزل گو شاعر ہیں جن کی شاعری کا مجموعہ ”خم کا کل“ 1975ءمیں منظر عام پر آچکا ہے۔ مختار ہاشمی کا شمار بھی اپنے زمانے کے ممتاز شعراءمیں ہوتا ہے۔ ان کا مجموعہ کلام ”شعلہ رقصاں“ شائع ہوچکا ہے۔ اکرام صہبائی اور قاضی حسام الدین گلبرگہ سے ایک رسالہ ”گلبرگ“ شائع کرتے تھے۔ جس میں ہندوستان کے مشہور صاحب قلم و فن کار چھپتے تھے۔ گلبرگہ کی ادبی تاریخ میں اکرام صہبائی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ اس کے علاوہ لئیق احمد نعمانی کا رسالہ ماہنامہ ”شہباز“ افق صحافت پر نمودار ہوا۔

            عبدالباقی رنگین مرثیہ کی صنف کی وجہ سے گلبرگہ میں اپنا ایک امتیازی مقام رکتھے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے مرثیے کافی مشہور ہوئے۔

            شکیب انصاری کے افسانے زندگی کے آئینہ دار ہیں ان کی تخلیقات آئینہ (بمبئی) جو کہ ظ انصاری کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا، اس میں ڈاکٹر شکیب انصاری کے افسانے شائع ہوتے اس کے علاوہ ” شاعر (بمبئی)، زاوئیے، استعارہ، سلامتی، ایقان وغیرہ گلبرگہ میںان کے افسانے شائع کرتے رہے۔آل انڈیا ریڈیو گلبرگہ سے ان کی کہانیاں نشر ہوا کرتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ادب میں معاشرے کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ اور اس کی ترقی و ترویج کے قائل تھے۔ مگر وہ کسی خاص نظریے کے قائل نہیں تھے۔ ”گوتم کی آرزو“ جو آئینہ بمبئی میں 1965ءمیں شائع ہوا۔ ان کا شاہکار افسانہ کہہ سکتے ہیں،اس کے ذریعہ انہوں نے کافی شہرت حاصل کی ان کے دیگر افسانوں میں ”ستون، ایک شام، کسک درمیانی، درد کی آواز، ساعت منتظر، آخر کب تک، ٹوٹتے لمحوں کے مسافر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

            شکیب انصاری کے بعد گلبرگہ کی ادبی فضا کو معطر کرنے والوں میں شاہد فریدی کا نام قابل ذکر ہے۔ جو بیسویں صدی میں شائع ہوئے۔ ”تم کو خبر ہونے تک، اچھوت، فرشتہ، اپناہی گریباں بھول گئے، موم کی چٹان، وغیرہ اہم افسانے ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ”کانٹوں کا سفر“ منظر عام پر آچکا ہے۔ اس کے علاوہ دو ناولٹ اور ایک ناول بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور شاہد فریدی کو گلبرگہ شہر کا پہلا ناول نگار ہونے شرف بھی حاصل ہے ۔

            راہی قریشی غزل کے شاعر ہیں انہوں نے نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں صحرا کا سفر، ضمیر شب، دیدہ بے خواب، عکس کی ہجرت اور چارسو۔ وہ زبان پر کافی دسترس رکھتے ہیں۔

            فروری 1960ءکو بارگاہ بندہ نواز ؒ کا علمی، ادبی و مذہبی ماہنامہ ”شہباز“ کا اولین شمارہ منظر عام پر آیا اس کی مجلس صدارت کی ذمہ داری مبارزالدین رفعت اور حکیم لئیق نے سنبھالی تھی۔ یہ شمارہ 15 سال تک ماہنامہ رہا اور اب سالنامہ کی شکل میں سائع ہورہا ہے۔

گلبرگہ کے ادبی حلقوں میں وزیر علی سہروردی کافی معتبر و معزز شخصیت کے مالک مانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فتح محمد فاتح کا شمار بھی بزرگ شعراءمیں ہوتا ہے۔ سرور مرزائی نے گلبرگہ کی ادبی و تہذیبی زندگی میں کئی شعری سرمائے چھوڑے ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ”لمحات و ظلمات“ اور نعتیہ شاعری کا مجموعہ ”شبون احمدی“ ان کی یادگار تصانیف ہیں۔ گلبرگہ کی ایک اور معتبر قدآور شخصیت حمید الماس کی ہے، انہوں نے غزل پر کم توجہ دی ان کے شعری مجموعوں میں جوئے بستر، برف، شجر آواز اور رنگ تماشا میں کوئی غزل نہیں، یہ نظموں کے مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ ’پہچان کا درد‘ ان کی شعری تخلیقات کا ایک یادگار تحفہ ہے۔ ان کی شاعری میں رومانوی کسک، ذاتی علائم، تشبیہات و استعارے، زندگی کے تمام پیچ و خم ان کے یہاں مل جاتے ہیں۔ شکیب انصاری کی ادبی زندگی کا آغاز 1953ءسے ہوا۔

            شکیب انصاری افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے تعدادمیں کم ہیں مگر وقت اور حالات کے سبب اس دور کے گراں قدر اضافہ ہیں۔ اسی دور میں عبدالقادر ادیب بھی شاعر اور نثرنگار کے طورپر قابل ذکر ہیں جن کے انشائیوںکا مجموعوہ ”نقار خانے میں طوطی کی آواز“ منظر عام پر آچکا ہے۔گلبرگہ کی سرسبز و شاداب سرزمین کو اور زرخیز بنانے والوں میں عبدالرحیم آرزو ایڈوکیٹ نے بھی نمایاں رول ادا کیا ہے وہ ایک قومی سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ ایک ماہر فنکار اور شاعر بھی تھے۔ انہوں نے 20 سال تک اردو ادب اور تہذیب کو فروغ دینے میں اپنی خدمات کا عطیہ دیا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ”اظہار آرزو“ منظر عام پر آچکا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو