نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*بحث مت کیجیے* *Speak only* when you feel *your words* are *better than* the silence

 *بحث مت کیجیے*

 *Speak only* when you feel *your words* are *better than* the silence.

*ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب ۔ *ردا فاطمہ* گلوبل ہینڈز

 کہا جاتا ہے کہ کسی جنگل میں ایک گھوڑے اور گدھے کے بیچ زور دار بحث چِھڑ گئی۔ اور انکا موضوع سخن تھا آسمان کارنگ ۔ گھوڑا کہتا کہ آسمان نیلا ہے اور گدھا کہتا کہ آسمان کالا ہے گھوڑا اسے بار بار سمجھاتا رہا لیکن گدھا بضد ہوگیا کہ نہیں آسمان کالا ہے۔ *بالآخر دونوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم جنگل کے بادشاہ سے پوچھ لیتے ہیں۔  دونوں اپنا مسٸلہ لے کر شیر کے پاس پہنچ گٸے اور شیر کو پورا ماجرا سنایا تو شیر نے فیصلہ دیا کہ. *گھوڑے کی بات صحیح ہے* آسمان کا رنگ نیلا ہی ہے اور پھر گھوڑے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ گھوڑے کو سزا دی جائے

تو گھوڑے نے حیرت میں آکر شیر سے کہا کہ جناب صحیح بھی میری بات ہے اور سزا بھی مجھے ہی... کیوں؟؟؟؟؟؟

 *تو شیر نے کہا کہ تمھاری غلطی یہ ہے کہ تم نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ گدھا ہے وہ بیوقوف ہے تو اس کے ساتھ بحث کیوں کی* ۔ یہ مختصر کہانی ہماری پوری زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس پر ہم بہت کم غور کرتے ہیں ۔ *بہت سے لوگوں کو ہم خواہ مخواہ اپنی بات سمجھانے کے لیے اپنا پورا دماغی قلبی زور لگا دیتے ہیں* ۔ اس کے باوجود وہ ہماری بات کو نہیں سمجھ پاتے ۔نتیجہ میں درست اور حق بات کرنے والا انسان غصہ میں آجاتا ہے اور غصہ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے ایسے میں حق پر ہوتے ہوۓ بھی وہ غلط ثابت ہو جاتا ہے ۔ *یاد رکھیں گفتگو کے آداب سے ناآشنا انسان بحث براۓ فتح مندی کرے گا اور علم و ادب سے متصف انسان بحث براۓ علم یا بحث براۓ حصول حق کرے گا* ۔ ہماری زندگی کا المیہ ہے کہ ہم اپنا بہت سارا وقت ایسے لوگوں پر ضاٸع کر دیتے ہیں۔ *لہذا اپنے وقت اپنے الفاظ اپنے مقاصد حیات کی پہلے خود قدر کریں ۔* دانا لوگ اسی لیے کہتے ہیں خاموشی عبادت ہے سکون دیتی ہے ۔ پہلے سوچو پھر بولو اور ایک عربی قول ہے الناس علی عقولھم لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کیجیے ۔ *اکثر مقررین اپنے میدان خطابت میں اساتذہ کلاس رومز میں اور موٹیویشنل سپیکرز اپنے اپنے میدانوں میں اسی لیے ناکام ہوتے ہیں* ۔ آپ جن سے کلام کرنا چاہتے ہیں ان کے معیار کی گفتگو کیجیے ۔ بھینس کے آگے بین بجانا محاورہ اسی لیے مشہور ہے بھینس نہ تو سمجھنا چاہتی ہے نہ اس کے پاس عقل فہم فراست الفاظ کا ذخیرہ ہے تو *آپ چاہے حکیم لقمان کے اقوال اس کے آگے بیان کریں اس نے آواز جب بھی نکالنی ہے اپنے مقصد کے لیے چاہے وہ چارے کی طلب ہو یا پانی کی یا دوسری بھینس کا گھورنا ہو* ۔ اب دوسرا معاشرتی المیہ کہ خود کو سچا کیسے ثابت کیا جاۓ اس کے لیے اونچا بولنا یا گرج کر بولنا بھی کسی طرح نفع مند نہیں۔ *سچ دھیمے انداز میں ادب کے داٸرے میں رہ کر بھی بولا جا سکتا ہے ۔* جہاں تک ممکن ہو بحث سے دامن بچاٸیے یہ آپ کے داناٸی عزت وقار عظمت اور شہرت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔ حق بجانب ہوتے ہوۓ بھی آپ خود کو مجرم بنا لیتے ہیں ۔ *لہذا جو شخص آپ کی باتوں کو بغیر سمجھے بحث کرنے پر آجائے تو اس مقام پر خاموشی اختیار کرلینا بہتر راستہ ہے۔*۔*شکریہ . .

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو