نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

🦋 *بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون* 🦋 *مرد حوّس کا پجاری*

 🦋 *بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون* 🦋

*مرد حوّس کا پجاری*

🦋 * Lady Qudsia's heart touching article * 🦋


*Priest of Male Passion*

*جب عورت مرتی ھے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے۔ اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے*

*پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ھے۔*

*باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ھے۔*

*اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ھے*

*واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے*

*ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ھے*

*اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے*

*اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''*


*لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے*

*اور کیوں نا ھو؟*


 *کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے۔*


 *جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں کتوں بلوں کے منہ سینے چاہیے ھیں*


*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے*


*"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*


*ھم نے سرِبازار حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"*


*مرد*


*میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ھاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رھی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ھوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤں گی۔ ابھی میں ساتھ ھوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔*

*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period