ایک پروفیسر کی بیگم نے پرندوں کی دوکان پر ایک طوطا پسند کیا اور اُس کی قیمت پوچھی۔ دوکاندار نے کہا محترمہ قیمت تو اس کی زیادہ نہیں ہے لیکن یہ اب تک ایک طوائف کے کوٹھے پر رہا ہے لہذٰا میرا خیال ہے اسے رہنے ہی دیں کوئی اور پرندہ پسند کرلیں۔ پروفیسر کی بیگم کو طوطا کچھ زیادہ ہی پسند آگیا تھا ، کہنے لگیں ’’ بھئی اب اسے یہ بھی تو پتہ چلے کہ شریفوں کے گھر کیسے ہوتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے طوطے کی قیمت ادا کی اور پنجرہ لے کر گھر آگئیں۔ پنجرے کو ڈرائنگ روم میں ایک مناسب جگہ لٹکایا تو طوطے نے ادھر اُدھر آنکھیں گھمائیں اور بولا
’’ واہ ، نیا کوٹھا ! یہ کوٹھا تو پسند آیا بھئی۔‘‘ بیگم کو اچھا تو نہیں لگا لیکن وہ خاموش رہیں۔ تھوڑی دیر بعد اُن کی بیٹیاں کالج سے لوٹ کر گھر آئیں تو انہیں دیکھ کر طوطا بولا،
’’ اوہ نئی لڑکیاں آئی ہیں‘‘۔
بیگم کو غصّہ تو آیا لیکن پی گئیں یہ سوچ کر کہ ایک دو دن میں طوطے کو سدھا لیں گی۔ شام کو پرو فیسر صاحب اپنے وقت پر گھر لوٹے۔
جیسے ہی انہوں نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا طوطا حیرت سے چیخا:
’’ ارے واہ جاوید! تو یہاں بھی آتا ہے ؟ !!!‘‘
اس کے بعد سے جاوید گھر سے غائب ہے اور بیگم نے طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں