نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علامہ اقبال کا عہد اورماحول

علامہ اقبال کا عہد اورماحول

Allama Iqbal's era and environment

صدیقی ثمینہ بیگم

انچارج پرنسپل  و  صدر شعبہ اردو

ڈاکٹر بدرالدین سنیئر کالج،جالنہ ،مہاراشٹر

            علامہ اقبالؔ کی جس عہد میں نشو نما اور پرورش و پروخت ہوئی وہ پورے طور سے غلامی کا عہد تھا ۔ انگریزیوں کا  پورے ملک پر تسلط و قبضہ تھا انھوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لئے ظلم و جبر برداشت کے ناروافعل کو روارکھا تھا جس سے ہندوستان کی ہر قوم ظلم و جبر برداشت کرنے پر  مجبور تھی۔ انھوں نے چونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے وہ خاص طور سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ تاریخی تہذیبی علمی اور معاشرتی ہر لحاظ سے وہ مسلمانوں کو زک پہونچا رہے تھے اس لئے وہ تعلیم اور خاص طور سے جدید تعلیم سے مسلمان نا آشنا تھے۔ اس لئے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے انھیں ایک طرف اپنے تشخص و امتیاز کو باقی رکھنے کی فکر لاحق تھی۔ تو دوسری طرف ظلم و جور سے نبرد آزمائی کرنی تھی۔ قدیم تعلیم اپنا اثر کھوتی جا رہی تھی اس لئے انھیں اپنی تہذیب و معاشرت اور رہن سہن میں مذہبی قدروں کے تحفظ کا مسئلہ بھی در پیش تھا۔

 حقیقت میں یہ زمانہ مسلمانوں کے لئے ہر اعتبار سے صبر آزما اور حد درجہ پُر آشوب تھا۔ آشوب و ابتلا کا یہ دور اگر چہ ۱۷۰۷ ؁ ء میں عالمگیر اورنگ زیب ؒ کے  وافات کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا، لیکن اس کی وضح  اور حد درجہ تکلیف دہ صورت ۱۷۹۹ ؁ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت اور بر صغیر پر انگریزوں کے تسلط کے بعد نمودار ہوئی، پھر جیسے جیسے یہ تسلط مستحکم و وسیع ہوتا گیا مسلمانوں کا دائرہ حیات، سیاسی و اقتصادی اعتبار سے تنگ ہوتا چلا گیا۔ پہلے اردو کو رواج دینے کے بہانے فارسی کو ختم کیا گیا اور اس ملّی رشتے کو کاٹ دیا گیا جس میں بنگال سے لے کر سرحد تک کے مسلمان ذہنی طور پر بندھے ہوئے تھے۔، پھر اردو کی جگہ انگریزی کو مستقلاً مسلط کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ہندوؤں کو اکثریتی قوم کی حیثیت سے ابھارنے اور مسلمانوں کی ثقافتی برتری پر ضرب کاری لگانے کی غرض سے اردو کے مقابلے میں ایک نئی زبان ہندی کی سر پرستی کی گئی۔

            ۱۸۵۷ ؁ء کے بعد انگریزوں کی یہ مُسلم کش حکمت عملی اور بھی سخت ہو گئی ، گورنر جنرل لارڈ البرا نے کہا"



میں اس عقیدے کی طرف سے آنکھ نہیں بند کر سکتا کہ یہ قوم (مسلمان) بنیادی طور پر ہماری مخلاف ہے اس لئے ہماری صحیح پالیسی یہ ہے کہ ہندوؤں کا اپنا طرفدار بنائیں۔"

 ڈبلو، ڈبلو ہنٹر نے لکھا کہ:                         

"مسلمانانِ ہندوستان انگریزی حکومت کے لئے خطرہ کی حیثیت رکھتے ہے وہ ہمارے پورے طریقوں سے بالکل الگ تھلگ ہیں اور ان تمام تبدیلیوں کو جن میں زمانہ ساز ہندوبڑی کوشی سے حصہ لے رہے ہیں اپنے لئے بری قومی بے عزتی تصور کرتے ہیں"

            ظاہر ہے کہ انگرریز ں کے اس طرز عمل نے مسلمانوں کو مایوس اور ہندوؤں کو دلیر کیا۔ راجہ رام موہن رائے نے"برہمو سماج " کے نام سے ۱۸۲۸ ؁ء ہی سے ہندو قومیت کے احیاءکا کام شروع رکھا تھا۔ اس کے زیر اثر بمبئی میں "پرارتھنا سبھا" قائم کی گئی اور ان دونوں سے متاثر ہو کر ۱۸۷۵ ؁ء میں دیا نند سروستی نے آریہ سماج کی بنیاد ڈالی۔یہ خالصاً ہندو جماعت تھی اور کسی غیر ہندو کو اس کا ممبر بننے کی اجازت نہ تھی، سارے پروگرام مذہبی تعصبات پر مبنی تھے اور ان کا مقصد ہندوؤں کو طاقتور بنا کر غیر ہندوؤں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا تھا۔جیسا کہ عزیز احمد اور فرانس  نے واضح الفاظ میں لکھا ہے۔ دیانند سرسوتی  تحریک صریحاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھی اور اس کے پلیٹ فارم سے بارہا یہ آواز بلند کی گئی کہ مسلمانوں کو یا تو ہندوستان چھوڑ کر چلے جانا چاہئے یا ہندو ہوجانا چاہئے۔ دیانند سرسوتی نے ۱۸۸۲ ؁ء میں "گؤرکشاء سبھا" قائم کی اور مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے جذبات مشتعل کرنے شروع کئے۔ اسی سال ایک بنگالی ہندو بیکم چندر چٹرجی کا ناول "آنند مٹھ" شائع ہوا جس میں مسلمانوں کے خلاف جی کھول کر زہر اگلا گیا۔ ہندوؤں کا قومی ترانہ "بندے ماترم" اس ناول کا ایک حصہ ہے۔ ہندوؤں کی یہ مذہبی تحریکیں شباب پر تھیں کہ ۱۸۸۲ ؁ء میں لارڈ پن کے اعلان کے ذریعے بر صغیر میں مقامی خود مختاری کے اداروں میں مقامی باشندوں کی نمائندگی اور مستقبل میں جمہوری زندگی کے آثار پیدا ہوئے۔ چنانچہ انگریزوں کے اشارے پر ۱۸۸۵ ؁ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے ہندوؤں نے ایک ملک گیر سیاسی جماعت بھی بنالی اور ایک انگریز ہی کو اس کا صدر مقرر کیا۔ اس میں لفظ"نیشنل" شمولیت کا مقصد یہ تھا کہ مسلم قومیت کو ہندو قومیت میں ضم کر دیا جائے تا کہ اگر کسی وقت بر صغیر   میں جمہوری حکومت قائم ہو تو ہندو ہی من حیث القوم اس کے حاکم و وارث قرار دیئے جائیں۔کانگریس کے قیام کے چند سال بعد ۱۸۹۳ ؁ء میں اس کے مشہور رہنماء بال گنگا دھر تلک نے "گنپتی میلہ" کو رواج دیا۔ یہ اشتعال انگیز میلہ "گنیش پوجا" کے بہانے دس دن تک لگا رہتا تھا اور اس بہانے مسلمانوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ جس سال تلک نے "گنپتی میلہ" کی بنیاد ڈالی اسی سال کانگریس کے ایک اور لیڈر پنڈت مدن موہن مالویہ نے "ناگری پرچار سبھا" قائم کی اور ہندوؤں کی لسانی و ثقافتی برتری کا نعرہ بلند کیا۔۔ سنہ ۱۸۵۷ ء کے بعد انگریزوں اور ہندوؤں نے مل کر ایک ایسی سیاسی و اقتصادی حکمت عملی کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جو بر صغیر کے مسلمانوں کا گلا گھونٹ دینے کی مترادف تھی۔ تبھی تو مولانا حالیؔ جیسا نیک سیرت اور شریف النفس شاعر بھی ۱۸۸۸ ؁ء میں " شکوہ ہند" کے عنوان سے یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ:


رُخصت اے ہندوستاں اے بوستان بے خزاں

رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی میہماں

            ان حالت نے جہاں عام مسلمانوں کو مایوس اور نڈھال کیا ہووہاں خاص خاص لوگوں کو سوچنے اور کچھ کرنے پر بھی آمادہ کیا۔  اردو کے خلاف حکومت کے اشارے پر ہندوؤں نے جو تحریک چلائی اس کے پیش نظر سر سید احمد خان ۱۸۶۷ ؁ء ہی میں کہہ چکے تھے کہ ہندو مسلمان اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس کا اظہار انھوں نے ۱۸۷۰ ؁ء میں نواب محسن الملک کے نام لندن سے اپنے ایک خط میں بھی کہا۔ ڈبلیو۔ ڈبلیو ہنٹر کی کتاب جس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا گیا تھا۔ اس پر بھی سر سید نے بہت سخت تبصرہ کیا۔ آنحضرتؐ کی سیرت کے بارے میں لارڈ ولیم میور کی کتاب کا بھی انھوں نے "خطبات احمدیہ" کے نام سے مدلل جواب لکھا۔

 

            علاوہ ازیں ۱۸۷۰ ؁ء میں رسالہ "تہذیب الاخلاق" جاری کیاا ور اس کے ذریعے اردو زبان کو سنجیدہ علمی و ادبی مضامین کا متحمل بنانے کی کوشش کی۔ ۱۸۷۵ ؁ء میں ایک ایسے مدرسے کی بنیاد ڈالی جو بعد کو مسلم یونیورسٹی اور علیگڑھ تحریک سے موسوم ہوا اور بین الاقوامی شہرت کا مالک بنا۔ کانگریس کے خلاف بھی انھوں نے بڑے شد و مد سے آواز بلند کی اور اس کے عزائم سے مسلمانوں کو بر وقت آگاہ کر کے ان میں مسلم قومیت کا نیا شعور پیدا کیا۔ ۱۸۸۶ ؁ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو تعلیم کی طرف توجہ دلائی۔ اسی زمانے یعنی ۱۸۸۴ ؁ء میں سر سید کی تعلیمی تحریک کے زیر اثر پنجاب میں" انجمن حمایت اسلام" قائم ہوئی جس نے بر صغیر کے مسلمانوں خصوصاً پنجاب کی سیاسی و سماجی بیداری میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے۔ جیسے انیسویں صدی کی آخری دھائیاں بر صغیر کے مسلمانوں کو حق میں بڑی مردم خیز اور حوصلہ افزا تھیں۔ مردم خیز اس لحاظ سے کہ ان میں مولانا حسرت موہانیؔ اور قائد اعظم سے  لے کر علامہ سید سلیمان ندویؔ و علامہ شبیر احمد عثمانیؔ تک  متعدد ایسی شخصیتیں پیدا ہوئیں جو آگے چلکر بلند مرتبہ شاعر، ادیب عالم دین اور رہنمائے قوم تھا اور اس سائے میں زندگی کی مسافت اور منزل تک رسائی قدرے آسان ہو گئی تھی۔

            جہاں تک شعر و ادب کا تعلق ہے اردو نثر میں تہذیب الاخلاق کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا آغاز پہلے ہی ہو چکا تھا۔ ۱۸۸۴ ؁ء سے پنجاب میں مولانا محمد حسین آزادؔ، مولانا حالیؔ کی کوششوں سے مشاعروں کی فضا بھی بدل گئی۔ اردو شاعری نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ مناظر فطرت اور اخلاقی و اصلاحی موضوعات پر نظم کہنے کا رواج ہوا ۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ۱۸۶۹ ؁ء میں مراۃ العروس کے ذریعے ناول نگاری کوقبول عام بخشا اور معاشرتی زندگی کو اخلاقی برائیوں سے پاک کرنے کے لئےمتعدد اصلاحی ناول لکھے۔ مولاناعبد الحلیم شررؔ نے نذریر احمد کے کام کو اور آگے بڑھایا اور اپنی تصانیف کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے ثقافتی ورثے کی قدر و قیمت کا از سر نو احساس دلایا۔ مولانا شبلی کی قومی نظموں اور تاریخ اسلام پر مبنی تحریروں نے مسلمانوں کو جینے کا تازہ حوصلہ بخشا اور تاریخ و سیرت نگاری کے لئے راہ ہموار کی۔ اکبر الہ آبادی نے اردو میں اعلیٰ درجے کی ظرافت نگاری کی بنیاد ڈالی اور ملت کو اپنی تہذیبی قدروں کے تحفظ کا احساس دلایا۔ مولانا حالیؔ نے شاعری اور نثر دونوں کی کایا پلٹ دی۔ ان کے "مقدمہ شعر و شاعری" اور "مسدس" نے شاعروں ، ادیبوں،اور ملی رہنماؤں، سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بنگال سے لے کر سرحد و پنجاب تک مسلمانوں میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی۔ گھپ اندھیرے میں روشنی کے آثار ہونے لگے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ مولانا حالیؔ کی مناجات :

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

            قبولیت کی منزل کو پہنچ گئی۔ اس لئے کہ وہی مسلمان جو پچھلےڈیڑھ سو سال سے سیاسی اعتبار سے شکستہ پا، اقتصادی اعتبار  سے خستہ ، تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ اور سعی عمل کے لحاظ سے غافل و ناکارہ پڑے ہوئے تھے، انیسویں صدی کی آخری دھائیوں میں یکا یک چونک پڑے اور اپنے تشخص و احیائے ملی کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ یہ مانا کہ فکر و فن کی دنیا میں عام طور پر پرانے سکے ہی چلتے رہے۔ قبول عام داغؔ اور میرؔ کی شاعری ہی کو حاصل رہا حسن و عشق کے وہی خیالات پروان چڑھتے رہے جنھیں تصوف کی معرفت عقیدہ و حدت موجود نے جنم دیا تھا اور عموماً اردو فارسی شاعری کا وہی اسلوب پسندیدہ رہا جو ایک مدت سے چلا آرہا تھا پھر بھی یہ کچھ کم اہم بات نہ تھی کہ فکر و فن کے پرانے ایوانوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔پرانے اور نئے  خیالات کی باہم آمیزش و آویزش شروع ہوئی۔ جذبہ خودداری وغیرت مندی میں ارتعاش پیدا ہوا، احساس کی دنیا حرکت و حرارت سے ہم کنار ہوئی، ذہن کو غور و فکر کے لئے ایک نیا افق ہاتھ آیا۔ یہ تھی امید و پہم اور جدید و قدیم کے تصادم کی و ہ فضا جس میں علامہ اقبالؔ نے آنکھ کھولی، پروان چڑھے اور آخر بر صغیر کے مسلمانوں اور شعر و ادب کے حق میں سر سید اور ان کے رفقاء کے خواب کی تعبیر بن گئے.

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو