نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

وھاٹس ایپ گروپ: *دیـــــارمیــــــــر*

وھاٹس ایپ گروپ: *دیـــــارمیــــــــر*


سلسلہ : *گـــــــرہ لـــــــگائیں*

تاریخ : 1.11.2022

Poetry of Mir Taqi Mir

مصرع نمبر : 199


*میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں*


پورا شعر :


*میں چل کے آج کون سی نگری میں آگیا*

*میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں*

(محسن باعشن حسرت)


*گــــــرہیں*۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دعویٰ ہر ایک شخص کا ھے، سچ نہیں مگر

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(احمد کمال حشمی)


میں آئینہ دکھاؤں تو کس کو دکھاؤں اب

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(اصغر شمیم)


سہتا ہے ظلم اور زباں کھولتا نہیں

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(مقصود عالم رفعت)


میں دار پر چڑھا کہ مرا جرم تھا یہی 

میرے سوا یہاں کوئی سچ بولتا نہیں

(شاداب انجم) 


یہ میری کوششوں کا نتیجہ ہے دار پر

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(اشرف یعقوبی) 


میرے سوا نہیں ہے کوئی سچ کا پاسدار

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(حسن آتش چاپدانوی)


مودی ہے دعوے دار کہ اے دیش باسیو !

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(نسیم فائق)


کٹتی نہ کیوں نثار فقط میری ہی زباں 

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(نثاردیناج پوری) 


سچ بولنے کا حشر وہ دیکھا کہ آج بھی

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(فیض احمد شعلہ)


اب گردشوں کا بوجھ اٹھاتا ہےکون یار 

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں 

(م ، سرور پنڈولوی)


سچ بولتی ہوں اور سمجھتے ہیں جھوٹ وہ 

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

 ( عصمت آرا)


کڑوی زباں پہ مصری کبھی گھولتا نہیں

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(سید اسلم صدا آمری) 


لوگوں کو مجھ سے بیر اگر ہے ، ہوا کرے

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(اشفاق اسانغنی)


خطرہ ھے جس کو جان کا ، لب کھولتا نہیں 

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں 

(سہیل اقبال )


بولوں اگر میں جھوٹ بھی، سب مان لیں گے سچ 

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

( مستحسن عزم )


کچھ بولنے سے اچھا ہے انجم کہ چپ رہوں

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں 

(مشتاق انجم)


سننے سے پہلے اس کو مجھے زعم تھا یہی

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(احمد مشرف خاور)


ہر اختلاف رائے پہ ثابت قدم ہوں میں

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

( غیاث انور شہودی)


سچ بات تو یہی ہے کہ یہ بھی نہیں ہے سچ

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(نذر فاطمی)


میں آئنہ ہوں پھر بھی یہ دعویٰ نہیں مجھے

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(جہانگیر نایاب)


کس پر بھروسہ میں کروں یارب بتا مجھے 

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(حسام الدین شعلہ)


سچ بولتا ہوں میں یہ مرا قول جھوٹ ہے

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(حشمت علی حشمت)


نظریں چرانے لگتے ہیں سب مجھ کو دیکھ کر

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

 (خورشید بھارتی) 


ہر شخص اپنے آپ سے کہنے لگا ہے یوں

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(مرشد عالم ندوی)


الفاظ اپنے اس لئے وہ تولتا نہیں

میرے سوا کوئی یہاں سچ بولتا نہیں

(شیما نظیر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتخـــاب : احمد کمال حشمی (ایڈمن) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو