نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فیض احمد فیض کی نعت گوئی

فیض احمد فیض

 

فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو پیدا ہوئے ۔ فیض احمد فیض پاکستانی کے صف اول کے شعراء میں سے مانے جاتے ہیں ۔ گورنمنٹ کالج اور اورئنیٹل کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد برٹش آرمی کا حصہ بنے ۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ شاعری وجہ شہرت بنی اور ادبی خدمات پر پاکستان حکومت نے تمغہ امتیاز سے نوازا فیض احمد فیض وہ واحد پاکستانی شاعر ہیں جو نوبل پرائز کے لیے نامزد کیے گئے ۔ انہوں لینن امن ایوارڈ بھی دیا گیا ۔

 

نعت گوئی

ابو الخیر کشفی فیض احمد فیض پر اعتراض تھا کہ انہو ں نے اتنا کہا اور شاعری کی دنیا میں اہم مقام حاصل کرلیا مگر انہیں نعت کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔ یہ اعتراض جب فیض تک پہنچا تو انہوں نے ہاجرہ مسرور کے گھر پر ہونے والی ملاقات میں کشفی مرحوم سے کہا ’’آپ تو ادب کے استاد ہیں، کیا آپ اپنے طالب علموں کو اس بُتِ ہزار شیوہ سے متعارف نہیں کراتے جسے غزل کہتے ہیں۔ اگر آپ نے ہمدردی اور دلِ بیدار کے ساتھ میری غزلوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو نعت کے اشعار مل جاتے ‘‘ اور پھر فیض نے اپنا یہ شعر پڑھا۔

شمعِ نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ

جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں

 

حمدیہ و نعتیہ کلام

اے تو کہ ہست ہر دلِ محزوں سرائے تو

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور