نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حقوقِ نسواں ، رائج اور حقائق* *اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی* *جرعات*

*حقوقِ نسواں ، رائج اور حقائق*

*اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی*


*جرعات*

Feminism, Practice and Facts*

سماج اور معاشرے کی تعمیر میں جتنا حصہ مرد ادا کرتا ہے اتنا ہی اور کئی اعتبار سے اُس سے کچھ زیادہ ہی عورت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے نام مرد کا ہی آتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کی فوقیت کا قائل معاشرہ ہے۔ یہ سو فیصد صحیح ہے کہ " نسوانیت و زن کا نگہباں ہے فقط مرد " ، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ عورت کوئی کمزور اور ناتواں مخلوق ہے۔ خدائے بزرگ و بر تر نے عورت کو بھی اسی مٹی سے بنایا ہے جس سے اس نے مرد کو بنایا،روز الست، جب اس نے ہم سب سے عہد لیا تھا تو اس میں مردوں اور عورتوں کی تخصیص نہیں کی تھی بلکہ سب سے بیک وقت پوچھا تھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ روز ازل سے آج تک انسانوں کے تمام تجربات شاہد ہیں کہ عورت کا وجود بغیر مرد کے نامکمل ہے۔ اسی طرح عورت کے بغیر مرد کا وجود بھی نا مکمل ہے۔ یہ گاڑی کے وہ دو پہیے ہیں جن کے بغیر انسانی زندگی کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ 

ان سب کے باوجود مرد نے عورت کے ساتھ ہمیشہ نا انصافی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی مخصوص جسمانی ساخت کی وجہ سے اور قدرت نے انسانی زندگی کی نشونما کے لئے اس کو جو اضافی صلاحیتیں بخشی ہیں، انہیں کو، اس کی کمزوری بنا کر قدم قدم پر اس کا استحصال کرتا آرہا ہے۔ اس کی ظاہری حسن کی مدح سرائی میں رطب السان تو رہتا ہے لیکن جہاں اس کی تعمیری صلاحیتوں کے اعتراف کا معاملہ آتا ہے تو کترا جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ یہ چیز صرف اسی کے نام سے منسوب ہو۔ کبھی سماج اور معاشرے کے اصولوں کے نام پر کبھی خاندانی اور قبائیلی غیرت کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر اس کو اپنا دست نگر بنائے رکھتا ہے تاکہ اپنی برتری اور اجارہ داری اس پر ہمیشہ قائم رہے۔ 

موجودہ زمانے کو مرد و عورت کے مساوات کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آج کے دور میں جتنا استحصال عورت کا ہورہا ہے وہ شاید ہی ماضی کے کسی دور میں ہوا ہو اور سب سے بڑا رونا اس بات کا ہے کہ یہ سب آج کی عورت بہتر انداز میں سمجھتی اور جانتی ہے پھر بھی وہ مرد کے دام فریب میں آکر اس کی اجارہ دار بننے پر بخوشی تیار ہوجاتی ہے۔ ایک طرف فیشن اور ترقی کا نام دے کر اس کو بیچ بازار برہنہ کیا جاتا ہے اور وہ خوشی خوشی اسے برداشت کر لیتی ہے تو دوسری طرف مذہب کے نام پر اسے ایک خیمہ نما قبا میں ڈھانک کر نمائش گاہوں میں لایا جاتا ہے اور وہ اسے بھی ہنسی خوشی جھیل لیتی ہے۔ ایک طرف تعلیم اور آزادی کے نام پر اسے اس کی فطری فرائض سے بھی دور کیا جارہا ہے تو دوسری طرف گمراہی کا خوف دلا کر اس کو چہار دیواری کے اندر قیدی بنائے رکھنے کا مسلسل عمل بھی جاری ہے۔ ایک طرف اس کے حسن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں تو دوسری طرف اس کو بدی کا محرک بتاکر اس سے بات کرنے کو اس کی آواز سننے کو اس کی طرف متوجہ ہونے حتی کہ اس کا نام لینے تک کو گناہ سمجھا جارہا ہے۔ ایک طرف بازاروں ، محفلوں ، مجلسوں اور ایوانوں میں اس کو رونق بڑھانے کا ایک ذریعہ بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف عبدات گاہوں کے دروازے بھی فتنے کا باعث بتا کر اس پر بند کئے جا رہے ہیں۔ افراط وتفریط کے اس شیطانی چکر میں درمیانی راہ کہیں کھو گئی ہے۔ اگر بھولے سے کوئی اس گم شدہ درمیانی راہ کی بات کر تا ہے تو فوراً پہلا طبقہ اس کو قدامت پسند اور آزادیء نسواں کا دشمن بتا کر اس کی ہجو اڑانے لگتا ہے تو دوسرا طبقہ اس کو گمراہی کا علمبرادار ، مغربی تہذیب کا غلام اور مذہب بیزار قرار دے کر اس پر کفر و الحاد کے فتاوے داغنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں شاید ہی کوئی خدا کا بندہ اس کار خیر کی طرف متوجہ ہو۔ 

ان سب کے علاوہ عورتوں میں بذات خود مسلسل استحصال اور کچلے جانے کی وجہ سے ایک عجیب قسم کی نفسیاتی کشمکش بھی پید ا ہوگئی ہے جس کے باعث وہ اپنا اچھا برا خود سمجھنے کی تمیز کھوتی جارہی ہے اور اس شعر کے مصداق 

چلتی ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیزرو کے ساتھ 

پہچانتی نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں  

ایسے میں عورت ہر اس گروہ کے ہمراہ ہوجاتی ہے جہاں سے اسے تھوڑی سی بھی توجہ اور پزایرائی کی امید نظر آتی ہے۔ کسی نے اس کے کچھ حقوق کی بات کی، کسی نے کسی محفل میں اس کی آزادی کا نعرہ لگا دیا،کسی نے اس کے استحصال پر سماج کو للکارا بھلے سے ان سب کی ذاتی زندگی عورتوں کے حوالے سے کتنی ہی بری کیوں نہ ہو یہ ان کے پیچھے ہوجائے گی۔ اسی نفسیاتی کشمکش کے نتیجے میں آج کل وہ ایسی تحریکوں اور احتجاجوں کی صف اول میں بھی نظر آرہی ہے جہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور مجبوراً اسے وقتی فائدوں کے لئے برداشت کیا جارہا ہوتا ہے۔ نام نہاد مذہبی رہنماؤں کا ایک بڑا طبقہ ماورائیت کی باتیں کر کے آسمانی خوف اور ڈر دلا کر، ضعیف العتقادی کو ہوا دے کر اسے الجھا ئے رکھنے میں مشغول ہے اور اسی نفسیات کی وجہ سے تھوڑی توجہ کی حصول کے لئے یہ یہاں بھی سجدہ تعظیم بجا لانے پر تیار ہے۔ اس کی اسی نفسیات کا فائدہ موجودہ دور کے بہت سے عیار قسم کے نام نہاد رہنما اور دانشور بڑی چالاکی سے اٹھا رہے ہیں اور کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں۔ 

کیا ہی اچھا ہو کوئی آواز اسی کے طبقے کے درمیان سے اٹھے، جو درمیانی راہ کی صحیح نشاندہی کرتے ہوئے اس کو ظاہری اور باطنی استحصال سے بچائے۔ اسے افراط و تفریط کے چکر ویو سے نکال کر، قدرت نے اس کے لئے جو فرائض منتخب کئے ہیں اس پر اسے مضبوطی کے ساتھ پھر سے جما دے تاکہ سماج اور معاشرہ ترقی کے فطری مراحل آسانی کے ساتھ طے کر سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو