غزل
،،چاند کے ماتھے داغ ہے پھر ببھی،وہ سندر کہلائے ،،
اس کا گھٹتا بڑھتا چہرہ پھر کیوں من کو بھائے ،،
بھرے ہوئے ہیں جن کے دامن ،دھن کیوں ان میں آئے ؟
ساگر پیاسا نہیں ہے ،پھر بھی دریا پیاس بجھائے !!
ہمدم ، ساتھی ، ساتھ چلیں پر ،دیکھو تو انیائے
سنگ دریا کے چلتے چلتے ،تٹ کیوں مل نہ پائے ؟
ہے جو چراغِ علم ،کچھ اس کے بھید سمجھ نہ آئے
رہے اندھیرا جس کے نیچے ، نور وہی پھیلائے !!
آنکھیں مل کر جگ کو دیکھیں ، امبر ان میں سمائے !
دائیں بائیں اک دوجے کو ہرگز دیکھ نہ پائے !!
جنگل میں ارشاد جو پودا بن پانی لہرائے!
تیرے آنگن میں پودا وہ بن پانی مرجھائے !!
ڈاکٹر ارشاد خان
https://www.sheroadab.org/2022/11/Ghazal by Dr. Arshad Khan .html
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں