نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

🌹Happy National Education Day 🌹 یوم تعلیم : مولانا ابو الکلام آزاد اور قومی یکجہتی

🌹Happy National Education Day 🌹

 یوم تعلیم : مولانا ابو الکلام آزاد اور قومی یکجہتی حکیم اجمل خاں کہتے ہیں کہ مولانا آزاد کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے، وہ ایک ہی زندگی میں مصنف، مقرر، مفکر، ادیب، مدیر اور ساتھ ہی سیاسی جدوجہد کے میدان میں سپہ سالار بھی ہیں۔

مولانا ابو الکام آزاد اور قومی یکجہتی مولانا آزاد بیک وقت ایک عظیم اسکالر، ایک ممتاز ادیب و فاضل، مفسر قرآن مجید، صحافت کے امام، شعلہ بیاں مقرر، ایک محب الوطن، ایک کامیاب سیاستداں، ہندو و مسلم اتحاد کے نقیب اور صف اول کے مجاہد آزادی تھے۔ جن کی پیدائش مکہ المکرمہ میں 11 ؍نومبر 1888ء اور وفات 22 ؍نومبر 1958ء کو دہلی میں ہوئی تھی۔ مولانا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے، صرف 11؍سال کی عمر میں ہی داغ دہلوی اور امیر مینائی کے پاس اپنے اشعا ر بھیجنے لگے تو 12؍برس میں فارسی پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عربی مبادیات سے واقف ہوگئے۔

🗓️🖊️📚🗒️

حُسین قُریشی🖊️ 


https://www.sheroadab.org/2022/11/Happy National Education Day youm e taleem aur azad.html


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور