*ملت کی دلچسپیاں رسومات میں ہے۔*
*عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری*
وطن عزیز بھارت میں مسلمانوں کے لیے بے شمار چیلینجیز ہیں۔سیاسی بے وزنی، کورٹ کا منفی رویہ، پولس اور مختلف ایجنسیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے واقعات ،فرقہ وارانہ منافرت، فسادات، تعصب، تنگ نظری ،تعلیمی ادارے۔ ملت کے سامنے روزگار تعلیم، صحت عامہ، مساجد، مدارَس مکاتب، خانقاہیں، اوقاف کی حفاظت، دینی وعصری تعلیم، اقلیتی اداروں کا کردار، مسلم پرسنل لاء، مسلمانوں کی دینی جماعتیں، مسالک، ادارے، شعار اسلام، اردوزبان کی ترقی سب کچھ داؤ پر ہے، آنکھ کا کنکر ہیں۔ان کی ترقی کے راستے مسدود، گورنمنٹ کی طرف سے ریزرویشن نہیں، تعلیم اور ملازمت میں حصہ داری 1% سےبھی کم ۔
ملت کی کثیر تعداد جاہلیت، جہالت، رسومات، خرافات اور
لایعنی مشاغل کو پسند کرتی ہے۔اپنے قیمتی اوقات کو ضاع کرنا، اپنی محنت کی کمائی کو کم درجہ کے کاموں میں صرف کرنا، فیشن، نام ونمود کے نام پر اپنا سرمایہ گھلادینا، جھوٹی آن بان شان کو قائم رکھنے کے لیے قرض کے دلدل میں دھنستے چلے جانا۔ بے شعوری، جذباتیت، انتشار، افتراق، سہل پسندی، رام طلبی، انتقام کے نام پر اپنا اثاثہ لٹا دینا اس کی عادت ثانیہ ہے۔تفاخر ہے۔
اس بھنور سے نکلنے کا راستہ دینی شعور، قرآنی راستہ، رسول صلی الله عليه وسلم کی تعلیمات، عقلمندی، ہوش مندی، تعیلیم، صحبت صالح، قناعت، توکل، صبر، راضی بہ رضا رہنا اور محنت شاقّہ میں ہے۔
شادی بیاہ کے بے جا ہندوانہ رسوم، جہیز کی لعنت، لڑکی کی طرف سے بڑے بڑے کھانے ، لڑکے والوں کی ڈیمانڈ اور بارات، لوازمات، دکھاوے، چڑھاوے، تفاخر، نام ونمود، جھوئی شان ۔ان پر اپنے پیسے صرف کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم اور ہنر مندی پر روپیہ خرچ کیا جائے ۔
ملت کا سواد اعظم اپنی کمائی اور خرچ پر نظر رکھے۔حلال اور ایماندار ی سے کمائے اور ضروری اور جائز کاموں میں صرف کرے۔رسومات کو چھوڑنے کی مہم چلائی جائے ۔
آنکھ کھول ،زمییں دیکھ زماں دیکھ
ملت اسلامیہ اپنے وجود کی بقاءکے لیے جدوجہد کرے۔ تعلیم کو اپناشعار اور ترجیہی ایجنڈا بنائے۔ وقت کی بابندی ہماری زندگی کا لازمی جزو بن جائے ۔غفلت کی نیند سے جاگیں ۔رسومات کے دلدل سے باہر نکلیں۔دینی علم قرآن وسنّت سے حاصل کریں ۔آمزش سے دور ہو جائیں خوابوں کی جنت میں بسر کرنے کی بجائے جنت کے حصول کے لیے نیکی اور پاکبازی کو اہنا وطیرہ بنالیں۔اپنے عقل وشعور کو استعمال میں لائیں ۔جن کاموں کے کرنے سے فوائد حاصل نہ ہوں ایسے رسم ورواج کو ختم کریں ۔رسم ورواج کے حصار کوتوڑیں۔اصل سے رشتہ جوڑیں۔دین کی گہری سمجھ، تفقہ فی الدین ،بصیرت ،حکمت کے لیے قرآن مجید ،احادیث صحیحہ
اور رسول کی سیرت مبارکہ کو حرز جان بنالیں ۔نہ صرف اسلام کا مطالعہ کریں بلکہ جدید علوم وفنون سے بھی گہری واقفیت اختیار کریں ۔۔۔۔۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب "اصلاح الرسوم "کا مطالعہ کریں ۔ڈاکٹر محمد عمر کی کتاب "ہندوستانی تہذیب کے مسلمانوں پر اثرات "
سے سبق سیکھیں ۔علماء اپنے بیانات اور جمعہ کے خطبوں میں علمی اور حالات حاضرہ پر گفتگو اور راہ نموئ کریں۔ملت کے شیرازے کو مزید بکھعنے، ٹوٹنے، منتشر ہو کر اپنی جمی جمائی ساکھ کے ختم ہونے کا ادراک کریں ۔اتحاد کی طاقت اور اس کے فوائد کے لیے گروہ مسلک بن جانے اور افتراق وانتشار کو یوا دینے سے بچیں۔
ہم بحیثیت امت کے فرد ،ملت کو کیا دے سکتے ہیں اس کے لیے کوشاں ہو جائیں۔
*وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر*
اسلام کی تصویر اور چلتی پھرتی دعوت بن جائیں۔ملت کا ہر سطح کا ہر فرد اپنے حصہ کی ذمہ داری ادا کرے۔
*عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری*
*
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں