نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

★خواہ مخواہ ★ (طنزومزاح) ایک لوہار کی ـــــــ! قسط ـ ۲

★خواہ مخواہ ★ (طنزومزاح)  

ایک لوہار کی ـــــــ! قسط ـ ۲ 

جیسے جیسے شادی کا دن قریب آرہا تھا دولہے والوں کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے ـ تاکہ ان مطالبات سے تنگ آکر یا بے بس ہو کر لڑکی والے رشتہ توڑنے پر مجبور ہو جائیں اور دادیاں جھٹ موقع کو غنیمت جان کر فورا رشتہ توڑ ڈالیں ـ لڑکی پڑھی لکھی ہے تو کیا ہوا، ہے تو غریب گھر کی ـ شگن کی رسم کی کامیابی نے دادیوں کو بے چین کردیاتھا ـ انھوں نے سخت قدم اٹھانے کی ٹھان لی ـ پیغام بھجوایا کہ دولہے والے مہندی کی رسم کرنا چاہتے ہیں ـ کسی ایئر کنڈیشنڈ ہال کا انتظام کیا جائے ـ پیغام بھیج کر دادیاں یہ سوچ رہی تھیں کہ وار صحیح نشانے پر لگا ہے ـ اب ان کی ساری پول کھل جائے گی ـ لڑکی خوب صورت ہے تو کیا ہوا ہے تو کیچڑ کا کمل ـ ہمارے سوئمنگ پُول کے بھی لائق نہیں ـ لیکن دوسرے دن ہی میسیج آیا کہ شہر کے ٹاپ اے سی ہال میں مہندی کی رسم کا انتظام کردیاگیاہے ـ لڑکے والوں کے گھر میں اس میسیج سے تو تعجب سے بانچھیں کھل گئی تھی ـ ساتھ ہی ساتھ تعریف کی سوغاتیں بھیجی جا رہی تھی کہ لڑکی والوں نے ہماری ناک رکھ لی ـ لیکن دادیوں کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی تو ناک ہی کٹ گئی ـ اے سی ہال میں بھی ان کے پیروں تلے کی آگ سر تک پہنچ گئی تھی ـ واپس لوٹے تو صرف ہاتھ ہی مہندی سے لال نہیں ہو رہے تھے بلکہ چہرہ بھی لال مرچ ہو گیا تھا ـ 

وہ بدلے کی آگ میں تمتما رہی تھیں ـ ان سے رہا نہیں جا رہا تھاـ انھیں غریب کی جھوپڑی پر تام جھام سے بارات لے کر جانے میں شرم آرہی تھی ـ اس بہانے سے اب کی بار انہوں نے ایسا داؤ پھینکا کہ سمجھنے لگے دلہن والے چاروں خانے چت سمجھو ـ کہلا بھیجا کہ شادی کسی ہال میں نہیں بلکہ عالیشان ہوٹل میں کرنا ہو گی ـ انتظام کیا جائے ـ دادیوں کا دل بلیوں اچھل رہا تھا ـ ان کو یہ پکا یقین ہو چلا تھا کہ اب چار ہی دن میں رشتہ ٹوٹنے کی خبر آجائے گی ـ پر ہوا کچھ اور! دو دن میں ہی صبح سویرے دلہن کے ماموں جان ایک شایانِ شان شادی کا کارڈ لے کر حاضر ہوئے جس پر شادی کا اڈریس علاقے کے فائیو اسٹار ہوٹل کا تھا ـ دولہے کا سارا گھر خوشی سے جھوم اُٹھا کہ دلہن والوں نے اب کی بار بھی ان کی لاج رکھ لی ـ ان کا سر فخر سے اونچا کردیا ـ مگر دادیوں کا سر اس خبر سے چکرا کر رہ گیا ـ دادا اور پوتا تو جھوم جھوم کے ناچ رہے تھے کہ ان کی شان میں چار چاند لگ رہے تھے ـ 

پردادیاں جل بھن کر راکھ ہوئی جارہی تھیں ـ ہمارے جیسے لکھ پتیوں کے ساتھ ان کا کیا مقابلہ؟ رشتے دار اور مہمان کیا کہیں گے! مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا دیا ـ نہیں نہیں! ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے ـ لڑکی شریف ہے تو کیا ہوا ـ ہے تو غریب ـ انہوں نے مطالبات اور بڑھا دیے ـ لیکن ادھر سے بھی ہر مطالبے پر ہامی بھری گئی ـ گھوڑا جوڑا مانگا مل گیا ـ شادی کے کھانے میں مزید ویرائٹیز مانگی گئی منظور کی گئی ـ مہمانوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ـ کوئی مظائقہ نہیں ہوا ـ جیسے جیسے اور جتنے بھی مانگیں پیش کی گئی سب من و عن قبول کی گئی ـ ایسا لگ رہا تھا کہ لڑکی والے بھی کمر باندھ کر اترے ہوں کہ لڑکی اس گھر میں بیاہ کر ہی چھوڑیں گے ـ ( باقی آئندہ ـ از ملا بدیع الزماں ـ طنزومزاح نگار ـ کتاب ـ " خواہ مخواہ " ) 

..................................................

........................ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور