نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*معاشیات کے اسلامائزیشن کا عَلَم بردار* (پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی وفات) ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

*معاشیات کے اسلامائزیشن کا عَلَم بردار* 

(پروفیسر نجات اللہ صدیقی کی وفات)


ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی


            صبح صبح اطلاع ملی کہ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کی وفات ہوگئی - زبان سے فوراً نکلا : انا للہ و انا الیہ راجعون - وہ کافی دنوں سے اپنے اعزا کے پاس امریکہ میں تھے - وقتاً فوقتاً ان کی شدید بیماری کی اطلاع ملتی رہتی تھی - بالآخر وقتِ موعود آپہنچا اور وہ اپنے رب کے پاس حاضر ہوگئے - ان کی عمر 91 برس تھی - 

      

          علم معاشیات میں ڈاکٹر صدیقی کی خدمات بہت نمایاں ہیں - اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں انھوں نے اس موضوع پر گراں قدر لٹریچر وجود بخشا ہے - انھوں نے پورے اعتماد اور تحقیق کے ساتھ یہ بات کہی کہ موجودہ دور میں سود سے بچتے ہوئے بینک کاری ممکن ہے - ان کے اس تصور کے مطابق کئی ممالک میں غیر سودی بینک قائم ہوئے - 1982میں انہیں عالم اسلام کا مشہور اور باوقار شاہ فیصل ایوارڈ برائے مطالعاتِ اسلامی تفویض کیا گیا - اسی طرح 2003 میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی نے اسلامی معاشیات کے موضوع پر اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر انہیں شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے نوازا -


          ڈاکٹر صاحب کا تعلق ریاست اتر پردیش کے شہر گورکھ پور سے تھا - ان کی ولادت 1931 میں ہوئی تھی - وطن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آگئے - وہیں غالباً گریجویشن سے قبل ہی انہیں عربی زبان اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا - اس وقت وہ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوچکے تھے - انھوں نے اُس وقت کے امیر مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی سے اصرار کیا کہ مرکز جماعت (رام پور) میں ان کی دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے - بالآخر مرکز میں مولانا صدر الدین اصلاحی کی سربراہی میں ثانوی درس گاہ قائم کی گئی اور چار سالہ نصاب جاری کیا گیا - نجات صاحب اس کے پہلے Batch کے طلبہ میں سے تھے - ثانوی درس گاہ کے تحت انھوں نے 6 ماہ مدرسۃ الإصلاح میں گزارا اور وہاں کے اساتذہ سے استفادہ کیا - بعد میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی واپس آکر اپنی تعلیم مکمل کی -


          علی گڑھ ہی میں نجات صاحب نے تدریسی زندگی کا آغاز کیا - وہ شعبہ معاشیات میں لیکچرر ، پھر ریڈر بنے ، اس کے بعد پروفیسرشپ انہیں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں ملی ، مگر کچھ ہی دنوں کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے ، جہاں ان کا تقرّر سینٹر فار ریسرچ ان اسلامک اکنامکس ، جامعۃ الملک عبد العزیز جدّہ میں بہ حیثیت پروفیسر ہوگیا تھا - وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ امریکہ کی یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا میں فیلو بھی رہے - انہیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف منیجمنٹ اسٹڈیز کے تحت پروفیسر ایمیریٹس بھی بنایا گیا تھا -


            پروفیسر نجات اللہ صدیقی ملّت اسلامیہ ہندیہ کے سرکردہ رہ نماؤں میں سے تھے - وہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بانیوں میں سے تھے - گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں جب مسلم پرسنل لا پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جارہے تھے اور اسے ختم کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں ، انھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر علی گڑھ میں ایک کام یاب سمینار منعقد کیا - اس کی پروسیڈنگ Muslim Personal Law کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوئی تھی - جماعت اسلامی ہند سے ان کا تعلق بہت گہرا تھا - وہ اس کے رہ نماؤں میں سے تھے - کئی میقاتوں میں وہ اس کی اعلیٰ اختیاری باڈی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے ، لیکن پھر زیادہ عرصہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے جماعت ان کی صلاحیتوں سے کما حقّہ فائدہ نہیں اٹھا سکی -


        پروفیسر صدیقی نے قابلِ قدر تحریری و تصنیفی سرمایہ چھوڑا ہے - اردو زبان میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ان کی درج ذیل کتابیں شائع ہوئی ہیں :

1- ادب اسلامی - چند نظریاتی مقالات 

2-تحریک اسلامی عصر حاضر میں 

3- اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان    

      اور تحریک اسلامی 

4-مقاصد شریعت 

5-اسلام کا معاشی نظام 

6-مالیات میں اسلامی ہدایات کی

     تطبیق 

7- معاش، اسلام اور مسلمان 

8-اسلام کا نظریۂ ملکیت 

9-غیر سودی بینک کاری 

10-انشورنس اسلامی معیشت میں 

         بہت پہلے انھوں نے قاضی ابو یوسف کی مشہور تصنیف 'کتاب الخراج' کا اردو ترجمہ کیا تھا ، جو 1966 میں پاکستان سے طبع ہوا تھا - انھوں نے سید قطب شہید کی کتاب العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام کا اردو ترجمہ 'اسلام میں عدل اجتماعی' کے نام سے کیا - اسی طرح سید قطب کی تفسیر سے چند صفحات کا ترجمہ کیا ، جو 'قرآن اور سائنس' کے نام سے شائع ہوا _ یہ دونوں تراجم مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے منظر عام آئے - 

 

         معاشیات میں ڈاکٹر صاحب کی زیادہ تر تصانیف انگریزی زبان میں ہیں ، جو درج ذیل ہیں :

1- Banking Without Interest 

2-Economic Enterprise in Islam

3-Riba,Bank Interest 

4-Some Aspects of Islamic Economy 

 5- Recent Theories of Profit: A Critical Examination 

6- Muslim Economic Thinking 

7- Issues in Islamic banking : selected papers 

8- Partnership and profit sharing in Islamic law

9- Insurance in an Islamic Economy 

10- Teaching Economics in Islamic Perspective

11- Role of State in Islamic Economy

12- Dialogue in Islamic Economics 

13- Islam's View on Property


         ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی سے ڈاکٹر صدیقی کا بہت قریبی تعلق تھا - ادارہ کے بانی صدر مولانا صدر الدین اصلاحی تو ان کے استاد تھے ، مولانا جلال الدین عمری اور پروفیسر فضل الرحمٰن فریدی ان کے دوستوں میں سے تھے - میرے علم میں ہے کہ عرصے تک وہ ہر سال ادارہ کا کچھ مالی تعاون کرتے رہے - علی گڑھ وہ جب بھی آتے تو وقتاً فوقتاً ادارہ تشریف لاتے اور ہم بھی کبھی وقت لے کر اور کبھی اچانک ان سے ملاقات کرنے پہنچ جاتے اور ان سے استفادہ کرتے - ڈاکٹر صاحب کا ایک معمول تھا کہ وہ جب کوئی مضمون لکھتے تو اپنے احباب اور شاگردوں کو اسے پڑھنے کے لیے دیتے اور اس پر ان کی رائے طلب کرتے - مجھے بھی انھوں نے اس طرح اپنے کئی مضامین پڑھنے کے لیے دیے تھے - 

   

          ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جس طرح دوسروں پر تنقید کرتے تھے ، اسی طرح اپنے اوپر ہونے والی تنقیدوں کو خوش دلی سے گوارا کرتے تھے اورذرا بھی ناگواری کا اظہار نہیں کرتے تھے - میرے ساتھ ایسا معاملہ کئی بار ہوا - ایک بار میں نے جماعت کے ہفتہ وار پروگرام میں مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا ذکر کیا تو وہ واقعہ بھی بیان کردیا کہ ایک انصاری صحابی نے اپنے مہاجر بھائی کو یہ پیش کش کردی تھی کہ میری دو بیویاں ہیں ، اگر آپ چاہیں تو میں ایک بیوی کو طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کرلیں - ڈاکٹر صاحب نے بعد میں کہا کہ یہ واقعہ درست نہیں معلوم ہوتا ، اس لیے کہ یہ Human Dignity کے خلاف ہے - میں نے عرض کیا کہ کوئی واقعہ جس زمانے میں پیش آیا ہو ، اسی زمانے میں پہنچ کر اس پر غور و فکر کرنا چاہیے ، اس سے بہت سی الجھنیں خود بہ خود رفع ہوجاتی ہیں - ایک بار ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ کچھ ایسی آیات کی نشان دہی کیجیے جن سے معلوم ہوتا ہو کہ اسلام اپنا غلبہ نہیں ، بلکہ بقائے باہم ( Co-Existance) چاہتا ہے - میں نے عرض کیا کہ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں - میرے نزدیک اسلام اپنا غلبہ چاہتا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے کہنے میں ہم شرمائیں - جب دنیا کا ہر نظریہ ، ہر نظام ، ہر پارٹی اپنا غلبہ چاہتی ہے تو اگر اسلام کے غلبے کی بات کی جائے تو اس میں کیا مضایقہ ہے -


          ڈاکٹر صاحب نے جب مقاصدِ شریعت پر لکھنا شروع کیا تو اس کی قسطیں پہلے سہ ماہی فکر و نظر اسلام آباد (پاکستان) میں شائع ہوئیں ، پھر ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے انہیں کتابی صورت میں طبع کیا - ہندوستان میں جب مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے اس کی اشاعت ہوئی تو اس پر متعدد اہل علم نے تنقیدیں کیں - ان میں میں بھی شامل تھا - میں نے سہ ماہی تحقیقات اسلامی میں اس پر تبصرہ کیا تو کتاب کی بعض باتوں سے اختلاف کیا ، لیکن انھوں نے اس کا برا نہیں مانا - پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا تو مرکزی مکتبہ نے دوبارہ اسے طبع کرنے کی ہمّت نہیں کی - ڈاکٹر صاحب نے تنقیدوں کی روشنی میں اس پر نظر ثانی کی اور کچھ بحثوں کو نکال دیا - ان دنوں میں مرکزی مکتبہ کی نگراں 'تصنیفی اکیڈمی' کا سکریٹری تھا - انھوں نے نظر ثانی شدہ مسودہ میرے پاس بھجوایا اور فرمایا کہ آپ اسے جس طرح چاہیں ایڈٹ کرلیں ، جو چاہیں نکال دیں ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ کتاب دوبارہ شائع ہو - کتاب پر میرے علاوہ مولانا سید جلال الدین عمری چیرمین تصنیفی اکیڈمی و امیر جماعت اسلامی ہند اور ڈاکٹر محمد رفعت ڈائریکٹر تصنیفی اکیڈمی نے بھی نظر ڈالی اور کچھ اصلاحات کیں - ڈاکٹر صاحب کو میسیج کیا کہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو تصحیح شدہ مسودہ آپ کو بھیج دیا جائے ، لیکن انھوں نے کہا کہ ضرورت نہیں ، آپ چھاپ دیں -


          ڈاکٹر صاحب سے میرے گھریلو تعلقات ہوگئے تھے _ علی گڑھ میں اور دہلی میں بھی وہ جب تشریف لاتے تو مجھے اطلاع کرتے کہ میں چھ سات ماہ کے علمی رسائل انھیں بھجوادوں ، تاکہ وہ ان پر ایک نظر ڈال لیں - ایک بار ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کے گھر آنا چاہتا ہوں - میں نے بہت خوشی کا اظہار کیا - وہ تشریف لائے ، دوپہر کا ماحضر تناول فرمایا اور ڈھیر سی باتیں کیں - ایک بار میں اپنی اہلیہ کو ان کے گھر ، جو مرکز جماعت اسلامی ہند سے تھوڑے فاصلے پر تھا ، لے گیا - وہ وہاں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم تھے _ دونوں نے ہماری خوب خاطر تواضع کی -


          پروفیسر نجات صاحب نے بھر پور علمی زندگی گزاری اور اپنی فکری صلاحیتوں سے امّت اور انسانیت کو خوب فیض پہنچایا - ان کا علمی کام ان شاء اللہ ان کے حق میں صدقۂ جاریہ ہوگا - اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، ان کی سیئات اور لغزشوں سے درگزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے ، آمین ، یا رب العالمین! 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو