نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جب کہ مقہور اپنی بولی ہے ! از ڈاکٹر ارشاد خان

جب کہ مقہور اپنی بولی ہے !


وہ کہ تھا ہند  جس کا گہوارہ 

میر و غالب کی آنکھ کا تارہ

جس پہ شیدا تھا یہ جہاں سارا 

کھولےگیسو پھرے وہ آوارہ 


آج مقہور اپنی بولی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!


وہ کہ خسرو کی جو پہیلی تھی 

جب وہ دلھن نئی نویلی تھی 

فارسی بھی سکھی سہیلی تھی 

اور عربی بھی ساتھ کھیلی تھی 


برج بھاشا کے سنگ ڈولی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!


ہو کے دلی سے وہ دکن کو چلی 

علی عادل کی گود میں تھی پلی

جس کے عشاق تھے قطب وجہی 

گلیاں پنجاب اور  دلی کی


جانے کیوں آج وہ اکیلی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!


نصرتی بھی ،سراج دکنی بھی 

خواجہ گیسو دراز اور ولی  

دھوم دلی ولکھنئو میں تری

آتش و داغ اور ولی دکنی 



جیسے کانٹوں سے پر چنبیلی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!


سید احمد کا سرہوابالا

صنف انشا کوشوق  سے  پالا 

جس سےحالی کاقدہوا   اونچا  

شاعری کو جدید کر ڈالا 


رنگِ انگلش میں آج بولی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!


کیسے بھولیں گے اے انیس تجھے 

مرثیوں کو عجیب رنگ دیے

شوخ سودائی تھے ،ہجو سے بھرے 

میر کے اشکِ سوگوار  بہے


نہ جگر کی زباں رسیلی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!

!  

ایک منشی پریم چند ایسے 

جو،، کفن ،، سے فسانے لکھتے تھے 

ایک منٹو ،کہ جو تھے  ،جیسے تھے 

ان کے افسانے ، ہائے ! کیسے تھے !!


اب نہ چادر سی آج میلی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے !!


اب نہ حسرت ہے اور نہ فرحت 

نہ ہی مجنون اور نہ عصمت 

شاہنامہ حفیظ کی مدحت 

فیض و حیدر کی سی دولت 


حالی ،مخدوم کی حویلی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے !


شاعر شرق، ہائے وہ اقبال 

وہ قتیل و فراز تیرا خیال 

جوش ساحر وہ بلند اقبال 

وہ مجاز و ظفر صفی سے مآل 


ایسے نایاب کی سہیلی ہے 

کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!



اردو ارشاد کیا سجیلی ہے !!

پھر بھی مقہور اپنی بولی ہے !!!



ڈاکٹر ارشاد خان 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور