جب کہ مقہور اپنی بولی ہے !
وہ کہ تھا ہند جس کا گہوارہ
میر و غالب کی آنکھ کا تارہ
جس پہ شیدا تھا یہ جہاں سارا
کھولےگیسو پھرے وہ آوارہ
آج مقہور اپنی بولی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!
وہ کہ خسرو کی جو پہیلی تھی
جب وہ دلھن نئی نویلی تھی
فارسی بھی سکھی سہیلی تھی
اور عربی بھی ساتھ کھیلی تھی
برج بھاشا کے سنگ ڈولی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!
ہو کے دلی سے وہ دکن کو چلی
علی عادل کی گود میں تھی پلی
جس کے عشاق تھے قطب وجہی
گلیاں پنجاب اور دلی کی
جانے کیوں آج وہ اکیلی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!
نصرتی بھی ،سراج دکنی بھی
خواجہ گیسو دراز اور ولی
دھوم دلی ولکھنئو میں تری
آتش و داغ اور ولی دکنی
جیسے کانٹوں سے پر چنبیلی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!
سید احمد کا سرہوابالا
صنف انشا کوشوق سے پالا
جس سےحالی کاقدہوا اونچا
شاعری کو جدید کر ڈالا
رنگِ انگلش میں آج بولی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!
کیسے بھولیں گے اے انیس تجھے
مرثیوں کو عجیب رنگ دیے
شوخ سودائی تھے ،ہجو سے بھرے
میر کے اشکِ سوگوار بہے
نہ جگر کی زباں رسیلی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!!
!
ایک منشی پریم چند ایسے
جو،، کفن ،، سے فسانے لکھتے تھے
ایک منٹو ،کہ جو تھے ،جیسے تھے
ان کے افسانے ، ہائے ! کیسے تھے !!
اب نہ چادر سی آج میلی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے !!
اب نہ حسرت ہے اور نہ فرحت
نہ ہی مجنون اور نہ عصمت
شاہنامہ حفیظ کی مدحت
فیض و حیدر کی سی دولت
حالی ،مخدوم کی حویلی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے !
شاعر شرق، ہائے وہ اقبال
وہ قتیل و فراز تیرا خیال
جوش ساحر وہ بلند اقبال
وہ مجاز و ظفر صفی سے مآل
ایسے نایاب کی سہیلی ہے
کیسے وقتوں میں آنکھ کھولی ہے!
اردو ارشاد کیا سجیلی ہے !!
پھر بھی مقہور اپنی بولی ہے !!!
ڈاکٹر ارشاد خان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں