نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جنت سے چچا غالب کا خط بنام فرخ جعفری ۔۔سپاہی قرطاس ادب

 بہت پہلے لکھی تحریر  


جنت سے چچا غالب کا خط

بنام فرخ جعفری ۔۔سپاہی قرطاس ادب 


آہا ۔۔جعفری ۔۔میں تو تم سے کبھی ملا نہیں ۔۔نہ تمھارا کوئی تعارف ۔۔پھر پوچھوگے۔۔میرے نام نامہ کیسا ؟۔۔ارے صاحب ہمیں گھر بیٹھے مطلب جنت میں اردو دنیا کی سب خبریں مل جاتی ہیں ۔۔۔ادب کو کہاں تک بے ادب بنادیا گیا کہ ۔۔چونچ میں سورج پکڑا دیا گیا   ۔۔میں نے  تو یہاں ندا کے خوب کان کھینچے۔۔ن۔م۔راشد کو بھی کھری کھری سنائی کہ صاحب ۔۔نثری نظم ہی لکھنی تھی تو سیدھے سیدھے نثر لکھتے ۔۔ کیا ہم نے خطوط نگاری میں نیا اسلوب پیدا نہیں کیا ؟۔۔انصاف کی بات کہوں ۔۔۔

۔قافیہ تنگ ہو تو قاری کو تنگ کرنے کی بجائے نثر لکھو۔۔مشتاق احمد  یوسفی سے خوب جم رہی ہے ۔۔نثر ،نظم کا مزہ جو دیتی رہی غریب کی  !۔۔۔بینکاری جیسے خشک پیشے سے منسلک رہ کر بھی ظریف رہا ۔۔شاید ظرافت اس کی گھٹی میں پڑی تھی ۔۔انتظار حسین سے بھی علیک سلیک ہے ۔۔مگر کچھ عرصے سے وہ مجھ سے ناراض ہے ۔۔۔تمھیں معلوم تو ہے ۔۔۔غالب منہ پھٹ جو ہے ۔۔بس علامتی افسانوں کے تعلق سے پوچھ لیا تھا ۔۔ارے بھائی میرے پلے نہیں پڑے تو پوچھوں گا کہ نہیں ۔؟۔۔وہ الگ منہ پھلائے بیٹھے ہیں اور ن۔م راشد نے تو تعلق ہی ختم کر لیا ۔ ۔۔

اوہ۔۔جعفری ۔۔۔اچھا یاد آیا ۔۔۔ترقی پسندوں نے یہاں بھی اپنا حلقہ بنا لیا ۔۔میں اور میر تو انھیں بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں ۔۔میں تو ہوں ہی حیوان ظریف ۔۔۔مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔۔مگر میر ۔۔دنیا میں بھی روتے رہے ۔۔اور خلد میں اردو کے حال زار پر اس زور سے رورہے ہیں کہ پڑوس جہنم سے کمپلیٹ آرہی ہیں  ۔

میں بھی کیا !۔۔بتانا ہی بھول گیا کہ تم سے شناسائی چند نوواردان جنت نے کرائی  ہے اور تمھاری شان میں وہ قصیدے پڑھے کہ ۔۔مجھے بہادر شاہ ظفر اور کوئین الزبتھ کے نام لکھے قصیدوں کو لپیٹا پڑا ۔۔ذوق بھی خاصے سراسیمہ ہیں ۔۔کہتے تھے ۔۔کون جائے ذوق دلی کی گلیاں چھوڑ کر ۔۔۔دلی سے یاد آیا ۔۔کرونا نے   ۔۔دلی کیا !،دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے ؟۔۔ہمارے وقت میں تو طاعون یا ہیضہ سے بستیاں خالی ہوتی تھیں ۔۔پر صاحب   ۔۔غالب نے وبا میں مرنا گوارا نہیں کیا ۔۔اور حسرت ہی رہ گئی کہ  ،

نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا 

غدر میں بھی گھر میں دبکے پڑا رہا ۔۔کہ چاندنی چوک تک جانے میں پتہ پانی ہوجاتا ۔۔یہ سب تو تھا ۔۔مگر ہم نے کبھی منہ نہیں ڈھانکا۔۔آج تو مرد حضرات بھی ۔۔کہتے ہیں باہر نکلنے سے پہلے نوز پیس تلاش کرتے ہیں ۔۔یہ سوشل ڈسٹینس کیا بلا ہے ۔؟۔۔یہ تو انگریزی کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں ۔۔کیا انگریز ابھی تک ہندوستان میں ہیں ؟۔۔ایک شاعر صاحب سے اس کا مفہوم معلوم ہوا ،

دو گز کی دوری ۔۔ماسک ہے ضروری 

یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ ۔ ۔۔ہاتھ ملانے سے بھی گئے !!۔۔گلے ملنا تو دور کی بات ۔اب شاعر بغیر گلے ملے ،گلے شکوے کس طرح دور کرے گا ؟۔۔اس میں ضرور بشیر بدر کا  ہاتھ نظر آتا ہے ۔۔۔پتا نہیں وہ کون سے عجب مزاج کے شہر میں گئے تھے جہاں تپاک سے گلے ملنے کی سزا یہ تھی کہ ہاتھ ملانے سے بھی ہاتھ دھولو۔۔

سنا ہے سب بند ہے ۔۔۔انگریزوں نے یہاں بھی مقامی بولیوں کو پچھاڑ ۔۔لاک ڈاؤن نافذ کر ہمارے دہنوں اور ذہنوں پر تالے لگا دیے۔ ۔۔مگر سوچنے والی بات ہے کہ ۔  ۔۔غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہوئےتھے  ۔۔ کہ آج بند  ہیں! ۔۔کرونا کا رونا ہر کوئی رو رہا ہے ۔۔ جو بھی دنیا سے آتا ہے ۔۔کرونا اس کے ذہن پر سوار۔۔یہاں بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا ۔۔منہ چھپاتا ۔۔الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ۔۔ساحر بار بار الاپتا ہے ۔ ۔۔نہ منہ چھپا کے جیو۔ ۔۔مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔۔فراز کہہ کہہ کر تھک گئے کہ ۔۔۔دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں ۔۔۔فیض کی رٹ اب بھی وہی ۔۔۔بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ۔۔۔بتاؤ جعفری !!۔۔منہ پر نوز پیس ہو تو کہاں کی آزادی ؟۔۔مجھے تو کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ جنت میں نہیں دلی کی گلیوں میں ہکا بکا گھوم رہا ہوں ۔۔یہ کہتے ہوئے ،

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے 

خلد کو دیکھ کے گھر یاد آیا 


آج بھی غالب ۔۔اسداللہ خان غالب 


ڈاکٹر ارشاد خان

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو