نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*کھڑکیاں* اقبال نیازی کھڑکیاں جھانکتی ہیں ہمارے اندر

*کھڑکیاں*

اقبال نیازی


کھڑکیاں جھانکتی ہیں ہمارے اندر

ہم نہیں جھانکتے ہیں کھڑکی میں

یہ اشارہ ہے لہلہاںتے جیون کا 

یہ علامت ہے امید کے بوچھاروں کی۔۔۔

یہ کھلتی ہیں تو۔۔۔۔

 نئے دریچے زندگی کے وا ہوتے ہیں

یہ بند ہو تو۔۔۔۔۔

 بس زندگی کی شام ہوتی ہے!!

کھڑکیاں!! وقت کی انگلی تھامے۔۔۔

جانے کن راستوں پر...

 چہل قدمی کر کے

 واپس اپنی دیواروں سے لپٹ کر

ہانپتی ہیں، کھڑکھڑا تی ہیں

لیکن وہ تھکتی نہیں

وہ تو زندگی کو سیکھاتی ہیں۔۔۔

کہ آشاؤں اور امید کے تازہ جھونکے

بس اس راستے سے اندر آکر

 جیون کو ہریالیوں سے بھرتے ہیں

کھڑکیاں تھکتی نہیں

نا جانے کب سے کھڑی ہیں چپ چاپ

زیست کے سارے دکھ درد

اپنے اندر سمیٹے!!

کھڑکیاں روشن ہیں اندھیرے میں بھی

کھڑکیاں بند کمروں میں بھی ٹمٹماتی ہیں

سانس لیتی ہیں

کھڑکیوں نے ہی ہم کو بتلایا

زندگی کس راستے سے گزرتی ہے؟؟؟۔۔۔

اور کہاں ، کب ،کیسے ہمارے کمرے میں پُھر سے اترتی ہے

جیسے ننھی کوئی گوریا  

پھر سے لہرا کے اندر آتی ہے 

اور دانا دنکا لیکر کوئی

کھڑکی سے ہی اُڑ بھی جاتی ہے


کھڑکیاں ہی ہمیں بتاتی ہیں 

پیڑ کب تن کے کھڑے ہوتے ہیں

اور کب وقت کے تھپیڑے سہہ کر ، 

ٹوٹتے نہیں

نا گرتے ہیں۔۔۔۔بس

جھک جاتے ہیں !!

یہ کھڑکیاں ہیں دریچہ زندگی کا۔۔

آس کا ، امید کا، محبت کا

اپنے اندر کے بند کواڑوں کو

کھول کر دیکھو تم کبھی ایک بار

 وقت کا جھونکا بہتا آئے گا

تُم کو جینا سکھا کے جائے گا۔۔۔۔

کھڑکیاں کام روز یہ کرتی ہیں

اس لیے میں نہیں جھانکتا ہُوں کھڑکی میں

کھڑکیاں روز مجھ میں جھانکتی ہیں۔۔۔۔

*اقبال نیازی*

22/11/2022 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور