نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 1 ||Literary Background of Gulbarga part - 1

گلبرگہ کا ادبی پس منظر

 

            شہر گلبرگہ ہندوستان کی ایک سابقہ ریاست حیدرآباد دکن کا ایک تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے عظیم شہر ہے۔ دکن، ہند کے اس علاقے کو کہتے ہیں جو دریائے نربدا اور بندھیاچل پہاڑ کے جنوب میں واقع ہے جس کو شمالی میدانی علاقہ بھی کہتے ہیں۔ اس شمالی میدانی علاقے کو دریائے گوداوری اور دریائے کرشنا اور ان دونوں کی معاون ندیاں سرسبز و شاداب کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔ دکن کے دریا مغرب سے مشرق کی طرف بہتے ہیں اور ان میں سے دو گوداوری اور کرشنا سمندر سے جاملنے سے پہلے ڈیلٹا بناتے ہیں۔

            شہر گلبرگہ دکن کا ایک اہم علاقہ تھا اب یہ لسانی بنیاد پر تشکیل ہوکر ریاست کرناٹک کا یک تاریخی شہر ہے، جو طول بلد 76.6 اور عرض بلد 17.3 میں واقع ہے۔ وہاب عندلیب نے گلبرگہ کا جغرافیہ کچھ اس طرح کھینچا ہے۔

            ” گلبرگہ کے شمال میں سلسلہ بالاگھاٹ کا اختتامی حصہ واقع ہے، جنوب میں دریائے بھیما بہتا ہے اور مشرق میں بھیما کا معاون ہے جو شاہ آباد کے قریب سے گذرتا ہے۔ اگر اس کا سیاسی جغرافیہ دیکھا جائے تو شمال میں ضلع بیڑ و بیدر، جنوب میں دریائے تنگبھدرا، مشرق میں احاطہ مدراس اور مغرب میں احاطہ صوبہ ممبئی ہے“

 

            1347ءمیں جب علاو الدین حسن نے بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی تو اس نے دولت آباد کی جگہ گلبرگہ کو اپنا پایہ تخت بنایا اور یہیں سے اس کی مستند تاریخ ملتی ہے۔ اس طرح گلبرگہ بہمنیوں کا ایک اہم مرکز بن گیا اور یہاں تہذیبی، لسانی، مذہبی اور ادبی اعتبار سے اس شہر کی اہمیت بڑھ گئی۔ اور اپنی انفرادیت کو منوانے لگا۔ مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سلطنت بہمنی سے پہلے گلبرگہ اسلامی تہذیب سے آشنا نہیں تھا۔ بقول وہاب عندلیب۔

            ” مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ سلطنت بہمنیہ سے قبل دکن خصوصاً گلبرگہ اسلامی تہذیب سے نا آشنا تھا ایسا نہیں ہے۔ جس طرح سندھ اور پھر پورے ہندوستان میں ترک سپاہیوں کی آمد سے قبل صوفیاءکرام نے اپنی تعلیمات سے انسانی اقدار کا پرچار کرنا شروع کردیاتھا اسی طرح دکن میں علاوالدین خلجی اور ملک کافور سے قبل اولیا ءاللہ دین حق کی تبلیغ اور چھوت چھات کے خلاف وحدتِ انسانی کے تصور کو عام کررہے تھے۔ چنانچہ حضرت صوفی سرمت ؒ سگر (ضلع گلبرگہ)، حضرت شیخ منہاج الدین انصاری تمیمی ؒ (گلبرگہ)، حضرت شیخ علاو الدین جنیدی کڑچی (بلگام)، حضرت رومی ؒ (دولت آباد)، شاہ جلال الدین گنج رواں ؒ (دولت آباد)، حضرت دادا حیات قلندر ؒ (چکمگلور) اور حضرت قادر ولی ؒ (ناگور) نے اپنے قول و عمل سے سلامتی و اخوت کا پیغام دیا“۔

 

            علاو الدین حسن گنگو بہمنی کے دور میں شہر گلبرگہ امن و امان سے سرشاعر تھا جس سے تہذیبی اقدار کو پروان چڑھنے میں سہولت اور آسانی حاصل ہوئی۔ سیف الدین غوری جو حسن گنگو کا وزیر تھا، جس کا شمار دانشوروں میں ہوتا تھا،اس نے حکومت کی اندرونی استحکام پر زور دیا جس سے تہذیب و تمدنے پروان چڑھنے کا راستہ ہموار ہوا۔ بہنی سلاطین نے علاقہ دکن اور خاص کر شہر گلبرگہ کے لئے سب سے بڑا کارنامہ یہ کیا کہ یہاں ہندو مسلم کلچر کی بنیاد رکھی اور اس کو خوب پھیلایا جو آگے چل کر گنگا جمنی تہذیب کہلائی۔ اس گنگا جمنی تہذیب پر حضرت محمد محمد الحسینی نے لکھا ہے۔

            ” حسن نے اپنے مجازی مالک کے نام کو جس کا نام گنگو تھا، اپنے نام کا جز بنالیا تھا۔ 1349ءمیں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور ہندومسلم تہذیب کے امتزاج کو اپنا نصب العین بنایا یہ وہی تہذیب تھی جسے آج گنگا جمی تہذیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے“۔    

            محمد شاہ اول نے حسن کے بعد گلبرگہ کو علم و ادب کا گہوارہ بنایا۔ اور بہمنی سلطنت اس کے حدود میں خوب ترقی کی۔ کئی علماءو صوفیاءاس کے دربار سے وابستہ تھے۔ حضرت سراج الدین جنیدی ؒ، حضرت معین الدین بیچاری، صدر شریف عمر قندی، حکیم ظہیرالدین تبریزی، مفی نظام الدین،مولانا بہاو الدین انصاری الندی ؒ وغیرہ۔

            محمد شاہ نے خواجہ حافظ کو گلبرگہ آنے کی دعوت دی۔ محمد شاہ خود بھی ایک اچھا شاعر تھا۔ محمد شاہ کے عہد میں ایران اور عراق سے اہل کمال علماءو غیرہ بہمنی سلطنت میں آتے گئے۔ اور ان کی آمد نے دکن کی تاریخ و تہذیب پر بہت اثر ڈالا۔ محمد شاہ کے بعد گلبرگہ سیاسی انتشار کا شکار ہوا۔ بعد کے بادشاہ یا تو قتل کردئے گئے یا اندھے بناکر قید کردئے گئے۔ یہ سلسلہ محمد شاہ سے لے کر فیروز شاہ کی تخت نشینی تک چلتا رہا۔

            فیروز شاہ بہمنی 1397 تا 1422ءکو تخت نشین ہوا وہ علم کا پروردہ اور قابل ترین بادشاہ تھا۔ فنون لطیفہ کے ہر شعبہ سے دلچسپی رکھتا تھا۔ بہمنی سلطنت کا آٹھواں بادشاہ اور ایک عظیم حکمران تھا۔ پرہیزگار اور تعلیم یافتہ انسان تھا۔ اس نے کئی عالموں اور شعراءکی سرپرستی کی۔ اس کے عہد میں گلبرگہ علم و ادب کا مرکز بنا۔ اس کے دور میں صنعت و حرفت، تجارت و ثقافت اور تہذیب و تمدن عروج پر تھی۔ اس نے اپنی رعایا کی تعلیم کیلئے سخت محنت کی اور وہ خود بھی کئی زبانوںسے واقف تھا۔ گوکہ فارسی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی۔ فیروز شاہ نے حضرت بندہ نواز ؒ کو گلبرگہ آنے کی دعوت دی ان کی آمد سے گلبرگہ کی لسانی، ادبی، روحانی، مذہبی اور تہذیبی زندگی کو ایک لافانی عروج حاصل ہوا اور آپ نے مذہبی تعلیمات کے ذریعہ گلبرگہ کو رونق عطا کی۔ ایک طرف فیروز شاہ جو خود ایک اچھا شاعر اور فلسفی تھا، اس نے علم اور فلسفہ کے دبستان کھولے تو دوسری طرف حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے علم دین اور تصوف کے دروازے کھول کر گلبرگہ کو ایک عظیم علمی ماحول عطاکیا۔

            عہد فیروز شاہ پر ڈاکٹر طیب انصاری لکھتے ہیں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو