نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 2 || Literary Background of Gulbarga part 2

continued 

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 2 || Literary Background of Gulbarga 2 

            ” فیروزشاہ کا دور حکومت اصل میں اس نشاة ثانیہ کا تسلسل تھا جس کا محمود شاہ نے آغاز کیا تھا۔ فرشتہ کا خیال تو یہ ہے کہ فیروز شاہ کی علمیت محمد بن تغلق سے کہیں زیادہ تھی اسے تفسیر، فقہ، طب، اخلاق، فنون ہندسہ و ریاضی اور فلسفہ سے دلچسپی تھی گو یا اس کا دماغ اس کے اپنے الفاظ میں آسمان فرہنگ تھا۔ (طیب انصاری)۔

            وہاب عندلیب نے بھی فیروز شاہ کی علم دوستی اور ادب پروری پریوں اظہار خیال کیا ہے۔

            ” بہمنی سلاطین میں فیروز شاہ بہمنی بہ لحاظ علمو دانش بلند درجہ پر فائزتھا۔ وہ کئی زبانیں جانتا تھا۔ فارسی کے علاوہ اس نے دکنی میں بھی شعر کہے ہیں۔ فارسی یں عروجی اور دکنی میں فیروز تخلص کرتا تھا“۔        

            فیروز شاہ ایک ادیب، شاعر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کا دلدادہ تھا۔ طیب انصاری اس کی یہی خوبی یوں بیان کرتے ہیں۔

            ” اس کے نزدیک علماءدیار غیر کا سب سے اچھا تحفہ ہوا کرتے تھے۔ درس و تدریس سے دلچسپی تھی چنانچہ شنبہ، شہ شنبہ اور چہارشنبہ کو خود درس دیا کرتا تھا۔ علوم کیلئے مدرسے اور فلکیات کے مطالعہ کیلئے دولت آباد میں رصدگاہ قائم کی تھی۔ فن تعمیر سے دلچسپی تھی۔ فیروزآباد دریائے بھیما کے کنارے آباد کیا۔ فیروز شاہ کئی زبانوں کا ماہر تھا اور برجستہ بولتا تھا۔ اس کے محلات میں مختلف زبانیںجاننے والی خواتین تھیں۔ کنڑا زبان سے واقف تھا۔ غیر مسلموں سے سماجی رشتے استوار کئے اور صحیح معنوں میں پہلی بار اکبر اعطم سے بہت پہلے فیروز شاہ نے دکن میں ہندوستانی کلچر کی بنیاد رکھی“۔

 گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ - 2 || Literary Background of Gulbarga 2 

            دکنی زبان میں فیروز شاہ کی ایک رباعی دستیاب ہوئی جو تاحال اس کے کلام کا ایک واحد نمونہ ہے۔اس کی رباعی کی زبان اس بات کی دلیل ہے کہ عہد بہمنی میںہی دکنی کا رشستہ ہندوی ریختہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ دکنی تہذیب کی طرح دکنی زبان نے اپنی الگ راہ بنالی تھی۔

رباعی فیروز شاہ:

 

تجھ مکھ چندا جوت دے سارا جیوں

تجھ کاں پہ صوتی جھلکے تارا جیوں

فیروزی عاشقی کوں ٹک یک چاکن دے

تج شوق ادھر لب سے شکر پار جیوں۔

 

            فیروز شاہ ایک صاحب دیوان شاعر تھا اگرچہ اس کا دیوان دستیاب نہیں ہوسکا۔ اگر دستیاب ہوتو پتہ چلتا کہ اس نے کس قدر ایک گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے۔

            فیروز شاہ کے عہد میں حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ 1400ءمیں گلبرگہ تشریف لائے۔ اس وقت دکنی جو قدیم اردو کی ایک شکل ہے، حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے اس کو علمی و ادبی زبان بنایا۔ حضرت بندہ نواز ؒ کو دکنی اردو کے اولین نثرنگار اور شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بقول وہاب عندلیب۔

            ” حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ فیروز شاہ کے عہد میں 1400ءمیں گلبرگہ تشریف لائے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کا شمار دکنی کے اولین شعراءمیں ہوتا ہے دکنی میں پہلی نعت ان کی تحریر کردہ ہے۔ انہوں نے راگ راگنیوں، لوریوں، گیتوں اور چکی ناموں کی صورت میں تصوف کے مسائل کو پیش کیا۔ انہوں نے سہیلا یعنی خوشی کے گیت بھی لکھے یہ گیت آج بھی روضہ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ میں بند سماع میں گائے جاتے ہیں۔

            شہر گلبرگہ میں دکنی زبان و ادب کے آغاز کا سہرا آپ ہی کے سر سے ہے۔ معراج العاشقین جو ایک نثری تصنیف ہے، اس کو کئی محققین نے آپ ؒ کے نام سے منسوب کیا ہے۔ مگر بعد کے آنے والے محققین اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ آیا یہ تصنیف آپ کی ہے لہذا یہ موضوع زیر بحث ہے۔ لہذا کوئی محقق حرف آخر نہیں اس معاملے پر مزید تحقیق باقی ہے۔ بقول وہاب عندلیب۔

            ” دکنی میں بعض نثری رسائل بھی حضرت سے منسوب کئے گئے ہیں مگر جدید تحقیق کے مطابق ’معراج العاشقین‘ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی تصنیف نہیں بلکہ گیارھویں صدی کے اواخر کے ایک صوفی بزرگ مخدوم شاہ حسینی کی کاوش ہے“۔ (گیسوئے اردو، ص 8)۔

            حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ نے علم وہدایت کے علاوہ تصوف اور عرفان کے موضوعاعت پر قلم اٹھایا انہوں نے یہاں کے ماحول کو دیکھتے ہوئے عوامی زبان کو ترجیح دی جو دکنی تھی، جسے قدیم اردو بھی کہا جاتا ہے جو مختلف زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی۔ ان کے عہد میں بولی ایک زبان کا درجہ حاصل کرچکی تھی۔ اس زبان میں حضرت خواجہ بندہ نواز ؒنے نہ صرف اپنے مریدوں کو رشد و ہدایت دیتے رہے بلکہ اس زبان میں کئی نثری و شعری تصانیف بھی چھوڑے ہیں۔ وہ ایک کثیرا لتصانیف بزرگ تھے اس لئے انہیں سلطان القلم کا لقب عطا کیا گیا ہے۔ پروفیسر قیوم صادق کے مطابق۔

            ” کہا جاتا ہے کہ حضرت بندگی مخدوم نے عربی ، فارسی اور اردو میں جو تصانیف یادگار چھوڑی ہیں آپ کے سن مبارک کے اعداد کے (۵۰۱) کے برابر ہیں“۔ (دکنی ادب، ڈاکٹر قیوم صادق، ص 26)         

 

            شہر گلبرگہ دور بہمنی میں نہ صرف علم و ادب کا مسکن بنا ہوا تھا بلکہ دکنی، قدیم اردو زبان و ادب کے اولین گہواروں میں سے ایک تھا۔ جہاں پر حضرت خوواجہ بندہ نواز ؒ جیسے صوفی بزرگ اس زبان میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام انجام دیتے رہے۔

            طیب انصاری رقمطراز ہیں۔

            ” عہد بہمنی میں گلبرگہ میںجن اکابر اہل قلم کا ذکرملتا ہے ان میں حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ، حضرت میاں محمود انصاری ؒ اور حضرت عین الدین گنج العلوم ؒ کے علاوہ فیروزشاہ بہمنی کا نام بھی شامل ہے۔ گمان غالب ہے کہ دکنی زبان عہد بہمنیہ میں ارتقائی منازل طے کرچکی تھی اور اس قابل بن چکی تھی کہ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ ہو۔ شبہ اس امر میں بھی ہے کہ فیروزشاہ اور محمود شاہ سلاطین بہمنی کے دور حکومت میں گلبرگہ رشک بغداد بن چکا تھا اور یہاں کی مذہبی، علمی و ادبی سرگرمیاں ایران و عرب کو شرما رہی تھیں۔ محمد شاہ دوم (1378تا 1397ئ) نے حافظ شیرازی کو گلبرگہ آنے کی دعوت دی“۔

            قدیم اردو (دکنی) کو ایک بولی سے زبان بنا کر تصنیف و تالیف کا درجہ عطاکرنے والے حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ آیا ان تصانیف کے خالق ہیںیا نہیں،یہ موضوع تو زیر بحث ہے، مگر یہ بات مسلم ہے کہ اس بولی کو زبان کا درجہ دینا اور فارسی کی جگہ اس زبان کو ترجیح دینا نہ صرف ایک خوش آئند امر ہے بلکہ اردو علم و ادب کی آبیاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سید مبارز الدین رفعت نے اپے مضمون میں آپ ؒ کے بہت سے اردو رسالوں کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

            ” کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ آپ نے اردو میں کئی رسالے تصنیف فرمائے ہیں“۔   

            حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کو نثر و نظم میں تب تک اولیت حاصل رہے گی جب تک کوئی مستند شواہد سامنے نہیں آتے۔ اس وقت تک ان کے سر ہی اولین نثر و نظم نگار کا سہرا رہے گا۔ آپ نے اپنے رشد و ہدایت، علم ادراک سے اس پورے علاقے کو فیض پہنچایا۔ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کے بعد ان کے خانوادے کے بزرگان نے بھی حضرت گیسودراز ؒ کی تقلید کی جن میں فرزند سید محمد اکبر حسینی کی تصوف پر ایک کتاب کا ذکر ملتا ہے جس میں نثر و نظم دونوں شامل ہےں۔ نصیرالدین ہاشمی نے ’دکن میں اردو‘ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔ (دکن میں اردو، ص 57 ) 


contdd... 3... 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو