نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ 3 || Literary Background of Gulbarga Part - 3

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ 3 || Literary Background of Gulbarga Part - 3 


            کسی زبان کی ترقی و ترویج کیلئے حکومت کی سرپرستی ضروری ہے تب تک یہ فروغ نہیں پاتی۔ بہمنی سلطنت نے اپنا پایہ  تخت تبدیل کرنے کے سبب گلبرگہ اپنی ادبی اہمیت کھوچکا تھا اور یہاں کی ادبی فضا ماند پڑگئی تھی۔ احمد شاہ نے 1429ءمیں پایہ تخت گلبرگہ سے بیدر منتقل کیا تو اس کے امرائ، ادبائ، دانشور، اہل علم، شعراءوغیرہ بھی بیدر منتقل ہوگئے۔ اس طرح گلبرگہ کا ادبی منظرنامہ ابرآلود ہوگیا۔ کچھ شعری و نثری تصنیف بھی ہوئی اس پر گمنامی کے پردے پڑ گئے۔

            عہد بہمنی میں گلبرگہ اور بیدر میں ان سلاطین کی زیر نگرانی قدیم اردو یا دکنی بحرہ عرب سے خلیج بنگال تک پھیل گئی۔ گلبرگہ ،بیدر، گولکنڈہ، احمد نگر، بیجاپور، بودھن، چن پتن، میسور، کڑپہ، مدراس اور اورنگ آباد وغیرہ دکنی کے اہم مراکز بن گئے۔ 1590ءمیں بہمنی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے ٹکڑے ہوگئے۔ گولکنڈہ اور بیجاپور دکن کے بڑے ادبی مراکز بن گئے۔ گلبرگہ 1686ءتک مملکت بیجاپور جو عادل شاہوں کا مرکز تھا اس میں شامل رہا۔ اس دور میں ہمیں دو نام تایخ ادب میں ملتے ہیں ایک سیوا اور دوسرا قاضی محمود بحری۔ سیوا گلبرگہ کا متوطن تھا، اس نے فارسی مثنوی روضہ شہد کا ترجمہ کیا اس نے مرثیہ بھی لکھے۔ محمود بحری دکنی شاعری میں مثنوی من لگن اور غزلیات کا ایک دیوان ان کی یادگار ہیں۔ اس دیوان میں 133 غزلیں شامل ہیں۔

            یہاں کی مٹی پہلے سے زرخیز تھی یہ اور برگ و بارلائی یہ وہ سرزمین ہے جس کی فضاوں میں حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ اور ان کے خانوادے کے بزرگوں اور دیگر کی تعلیمات اور نثری و شعری تحریروں کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔

            1883ءمیں سلطنت آصفیہ نے اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی تو دکن کے تمام اضلاع کے ساتھ گلبرگہ میں بھی اردو میں تعلیم کی تحریک چل پڑی اس عہد کے عہدیداروں نے زبان و ادب کی خدمت کی۔ مشاعروں کی بنیاد ڈالی، اس دور کے شاعروں میں چاق، شوخی، ذوقی اور اورجادو جو مشاعروں کے روح رواں تھے۔

            گلبرگہ میں مشاعروں کا انعقاد 1883ءسے ہوچکا تھا۔ 1940ءتک مختلف چھوٹے بڑے مشاعرے ہواکرتے تھے جس میں ملک بھر کے نامور شعراءشرکت کرتے تھے۔ ایسے ہی کسی مشاعرے کا ذکر نیاز نے اپنے مضمون میں کیا جس کو طیب انصاری نے داستان ادب میں نقل کیا ہے۔

            ” گلبرگہ میں مشاعروں کا انعقاد کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ شاب نے بٹلی الاوہ میں، مخدوم علی تاب نے اپنے مکان پر، نشتر ملیح آبادی نے اپنے دولت کدہ آغا بنگلہ میں حریفانہ مشاعرے منعقد کئے“۔

گلبرگہ کا ادبی پس منظر پارٹ 3 || Literary Background of Gulbarga Part - 3 

            1940ءاس دور کے مشہور شعراءمیں حمیدہ بانو مخفی،مولوی اسماعیل شریف، ازل، مولوی سید محمود ایاز، مولوی سید عباس حسینی لطیفی، عبرت، حافظ عبدالرشید، غلام علی اثر، فتح محمد فاتح، خیربندہ نوازی وغیرہ ذی علم و ذی شعور افراد کی کوششوں سے گلبرگہ کلب وجود میں آیا۔ 1966ءمیں گلبرگہ میں ’گلبرگہ کلب‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا۔ اس بات کا اعتراف نیاز گلبرگوی نے بھی کیا ہے۔

            ” گلبرگہ کلب (CLUB) ایک عجیب و غریب ادارہ تھا۔ گلبرگہ کلب میں شعری محفلوں کے ساتھ ساتھ نثری ادب کو بھی فروغ حاصل ہوا، گلبرگہ کلب کے قیام کے بعد نوجوان فنکاروں کی نسل نے اس کی آبیاری کی اور خوب سینچا۔ بقول طیب انصاری۔

            ”گلبرگہ میں ’گلبرگہ کلب‘ ادارے کے علاوہ ’پیام برادری‘ بھی قائم تھی۔ اس برادری کے تحت ادبی محافل منعقد ہوتیں اور ڈرامے اسٹیج ہواکرتے تھے۔ اس برادری کی وجہ سے حیدرآباد کے بہت سے شعراءمثلاً ادیب مکیش، شاہد صدیقی اور مخدوم محی الدین سے اہل گلبرگہ کے مراسم بڑھ گئے۔ اسی زمانے میں نوجوانوں نے بھی بال و پر نکالے۔ اس میں ابراہیم جلیس سب سے زیادہ ممتاز رہے۔ ان کے علاوہ نوجوانوں کی اس انجمن رنگ و بو میں درج ذیل خواتین و حضرات بھی شامل تھے۔ شور عابدی، فضل گلبرگوی، حسن خان نجمی، احمد حسین، غلام علی اثر، احمد حسین قادری، عثمان صحرائی، عزیز الحسن محشر، محمود حسین کاشمیری، محبوب حسین جگر، سلیمان خطیب، روشن محمد علی، غلام علی چغتائی، عبدالرزاق،حسین سہروردی، سرورمرزائی، احمد الدین قریشی، شہاب الدین ثاقب،سعیدہ بیگم، راحت النساءراحت، سید محمود شورش اور سائیکل و تلوار چمپئن قیوم گلبرگوی وغیرہ۔

            گلبرگہ کے قلمکار بھی قومی و بین الاقوامی تحریکوں سے متاثر ہوتے رہے تھے۔ ان قومی اور بین الاقوامی تحریکوں میں سب سے اہم تحریک ’ترقی پسند تحریک‘ تھی جس کا اثر دنیائے ادب پر سب سے زیادہ پڑا جس کی شاخ انجمن ترقی پسند کی شاخ قائم ہوئی جس کا مرکز گلبرگہ بنا، جس کے تحت کئی مجالس منعقد ہوتی تھی۔ طیب انصاری اس کے تعلق سے رقمطراز ہیں۔

            ” گلبرگہ اور گلبرگہ کے ادیب و شعراءاس زمانے میں قومی اور بین الاقوامی تحریکوں سے متاثر ہورہے تھے۔ چنانچہ خلافت تحریک، خاکسار تحریک، قومی تحریک، رضاکار تحریک اور ترقی پسند تحریک کا اثر نمایاں تھا۔ ان تحریکات کا اثر گلبرگہ کی عوام پر کیا پڑا، اس کا تجزیہ تو کوئی سیاست داں یا تاریخ کا طالب علم ہی کرسکتا ہے۔ تاہم اردو ادب پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے اور ادب خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں سے آنکھیں چار کرنے لگا۔ (طیب انصاری، داستان اردو گلبرگہ،) 



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو