نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Mir Taqi Mir Life and Contributions میر تقی میر حیات و خدمات

 

میر تقی میر حیات و خدمات

Mir Taqi Mir Life and Contributions

ریختہ کے تم ہی استادنہی ہوغالب

کہتےہیں اگلےزمانےمیں کوئی میرؔ بھی تھا

 


Introduction : : تعارف

میر تقی میر کا اصل نام محمد تقی تھا میر تقی میر 28 مئی 1723 کو اکبر آباد (آگرہ) میں پیدا ہوے میر ان کا تخلص تھا۔ ان کے والد،علی متقی اپنے زمانہ کے صاحب کرامت بزرگ تھے۔ ان کے اجداد حجاز سے ترک سکونت کرکے ہندوستان آئے تھے اور کچھ عرصہ حیدرآباد اور احمد آباد میں گزار کر آگرہ  میں مقیم ہو گئے تھے۔میر آگرہ میں ہی پیدا ہوئے۔میر کی عمر جب گیارہ بارہ برس کی تھی اان کےو الد کا انتقال ہو گیا۔میر کے منہ بولے چچا امان اللہ درویش ،جن سے میر بےحد مانوس تھے، پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔جس کا میر کو بہت صدمہ تھا۔باپ اور اپنے مشفق  امان اللہ کی موت نے میر کے ذہن پر غم کے دیر پا نقوش ثبت کر دئے جو ان کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں۔والد کی وفات کے بعد ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا۔وہ بڑی کسمپرسی کی حالت میں تقریباً چودہ سال کی عمر میں دہلی آ گئے۔دہلی میں صمصام الدولہ،امیر الامراءء ان کے والد کے عقیدتمندوں  میں سے تھے۔انہوں نے ان کا ایک روپیہ روزینہ مقرر  کر دیا جو ان کو نادر شاہ کے حملہ تک ملتا رہا۔صمصام الدولہ نادر شاہی قتل و غارت میں مارے گئے۔ذریعہ معاش بند ہو جانے کی وجہ سے میر کو آگرہ واپس جانا پڑا لیکن اس بار آگرہ ان  کے لئے پہلے سے بھی بڑا عذاب بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ وہاں ان کو اپنی ایک عزیزہ سے عشق ہو گیا تھا جسے ان کے  گھر والوں نے پسند نہیں کیا اور ان کو آگرہ چھوڑنا پڑا۔وہ پھر دہلی آئے اور اپنے سوتیلے بھائی کے ماموں اور اپنے وقت کے جید عالم،سراج الدین آرزو کے پاس ٹھہر کر تحصیل علم کے جویا ہوئے۔نکات الشعراء میں میر نے ان کو اپنا استاد کہا ہے لیکن ذکر میر میں میر  نے جعفر علی عظیم آبادی اور امروہہ کے سعادت علی خان کو اپنا استاد بتایا ہے۔موخرالذکر نے ہی میر کو ریختہ لکھنے کی ترغیب دی تھی۔میر کے مطابق خان آرزو کا سلوک انن کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور وہ اس کے لئے اپنے سوتیلے بھائی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔وہ ان کے سلوک سے بہت دل بر داشتہ تھے۔ممکن ہے کہ آگرہ میں میر کی عشق بازی نے ان کو آرزو کی نظر سے گرا دیا ہو۔اپنے اس عشق کا تذکرہ میر نے اپنی مثنوی خواب و خیال میں  کیا ہے۔میر نے زندگی کے ان تلخ تجربات کا گہرا اثر لیا اور ان پر جنوں کی کیفیت طاری ہو گئی۔کچھ عرصہ بعد  دوا علاج سے جنوں کی شدت تو کم ہوئی مگر ان تجربات کا ان کے دماغ پر  دیر پا اثر قائم رہا۔  

 

میر نے خان آرزو کے گھر کو خیر باد کہنے کے بعد اعتماد الدولہ قمرالدین  کے نواسے رعایت خان کی مصاحبت اختیار کی اور اس کے بعد جاوید خاں خواجہ سرا کی سرکار سے متعلق ہوئے۔اسد یار خاں بخشی فوج نے میر کا حال بتا کر گھوڑے اور "تکلیف نوکری" سے معافی دلا  دی۔مطلب یہ کہ برائے نام سپاہی تھے کام کچھ نہ تھا۔اسی عرصہ میں صفدر جنگ نے جاوید خاں کو قتل کرا دیا اور میر پھر بیکار ہو گئے۔تب مہا نراین ،دیوان صفدر جنگ، نے ان کی دستگیری کی اور چند مہینے فراغت سے گذرے۔اس کے بعد کچھ عرصہ راجہ جگل کشور اور راجہ ناگر مل سے وابستہ رہے۔راجہ ناگر مل کی رفاقت میں انہوں نے بہت سے مقامات اور معرکے دیکھے۔ان مربیوں کے حالات بگڑنے کے بعد وہ کچھ عرصہ گوشہ نشین رہے۔جب نادر شاہ اور احمد شاہ کی خونریزیوں نے دہلی کو اجاڑ دیا اور لکھنو آباد ہوا تو نواب آصف الدولہ نے انہیں لکھنو بلا لیا۔

Books : : تصانیف

میر تقی میر نے اصناف سخن میں بہت کام کیا ہے اور کمال فن کا مظاہرہ جگہ جگہ کر کے دکھایا ہے۔

میر تقی میر نے 37 مثنوی 13 واقعاتی ، 03 مدحیہ اور 12 ہجویہ) لکھیں۔ معروف مثنوی میں اعجاز عشق ، دریا عشق ، شعلہ عشق ، ملت عاشق ، جوش عشق ، معاملات عشق ، اعجاز عاشق ،دریائے عشق جوان و عروس اور خواب وخیال شاملِ ہیں۔  

میر تقی میر کی نظموں کی تعداد آٹھ ہے۔ حضرت علی المرتادہ کے اعزاز میں تین حمد ، حضرت امام حسین کے اعزاز میں ایک مالا ، نواب آصف اللہ کی تعریف میں دو مالا ، اس وقت کے بادشاہ شاہ عالم کی تعریف میں ایک مالا ، دہلی میں ان ساتوں درس گاہوں ، اور ایک مسند میں لکھنؤ میں نے آصف الدولہ کی تعریف میں لکھا تھا۔

نکات الشعراء

فارسی زبان میں اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ہے۔

"ذکر میر" میر تقی میر کا ماضی ہے۔

انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے "فیضِ میر" لکھا۔

اس میں ایک فارسی دیوان بھی ہے۔



وفات:

میر لکھنو کو برا بھلا کہنے کے باوجود  وہیں رہے اور وہیں تقریباً 90 سال کی عمر میں 21 ستمبر 1810 کو ان کا انتقال ہوا۔

اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے "خدائے سخن" کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھے

میر نے بھر پور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ۔سکون و راحت کا کوئی طویل عرصہ ان کو نصیب نہیں ہوا۔



مجھ کو شاعر نہ کہو میر ؔ کہ صاحب ہم نے

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور