نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مشاعر اور متشاعر کسے کہتے ہیں۔

.

مشاعر اور متشاعر کسے کہتے ہیں۔

https://www.sheroadab.org/2022/11/Mushayer kisy kahty hain aur mutashayer kisy kahty hain.html

" مشاعر دراصل اس شاعر کو کہتے ہیں جس کا شاعر ہونا بھی مشکوک ہوسکتا ہے اور متشاعر ہونا بھی یقینی نہیں ہوتا، مگر چونکہ وہ مشاعروں میں شرکت کرتا ہے لہٰذا شاعر یا متشاعر ہو یا نہ ہو مگر’مشاعر‘ ضرور ہوتا ہے۔ 


گویا یہ شاعروں کی وہ قسم ہے جو صرف مشاعروں میں پڑھنے کے لیے شعر کہتے ہیں جن کا میدان عمل اور میدان بے عملی جو کچھ بھی ہے مشاعرہ ہے اور جن کا مقصد زندگی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مشاعرہ خواہ وہ کسی قسم کا ہو، کہیں بھی ہو، کسی نے بھی کیا ہو، اس میں شرکت کرنا ضروری ہے۔ 


شاعروں کی یہ قسم مشاعروں کے لیے پیدل قافلوں میں، بیل گاڑیوں اورتانگوں میں، لاریوں اور موٹروں میں، ریل اور ہوائی جہاز تک میں مشاعروں کی شرکت کے لیے رواں دواں نظر آتی ہے۔ موسم کی کوئی قید نہیں، گرمی ہوتو کرتے اور انگرکھے میں جائیں گے۔ جاڑا ہوتو چسٹر اور کمبل میں جائیں گے۔ برسات ہوتو چھتری اور برساتی میں جائیں گے مگر جائیں گے اور ضرور جائیں گے، سوکام چھوڑ کر جائیں گے۔ دفتروں سے رخصت علالت لے کر جائیں گے۔ شادیوں کی تاریخیں بڑھوا کر جائیں گے، کوئی مرجائے تو قبرستان پر مشاعرے کو ترجیح دیں گے اورجائیں گے۔ بیمار ہیں تو دوا کی شیشیاں لے کر جائیں گے۔ مختصر یہ کہ مشاعرہ ان سے نہیں چھوٹ سکتا،یوں چاہے زمانہ کا زمانہ ان کو چھوڑ دے۔ یقین نہ آتا ہوتو مئی اور جون کی گرمی میں ملتان میں مشاعرہ کردیکھیے۔ دسمبر اورجنوری کی سردی میں کوہ مری پر کوئی بزم سخن منعقد کرکے امتحان کرلیجیے۔ یا شدید بارش میں موچی دروازے کی کسی تنگ گلی میں ایک مصرعہ طرح ڈال دیجیے، پھر دیکھیے کہ کہاں کہاں کا شاعر پہنچتا ہے اور کس کس حال میں پہنچتا ہے۔ حال خواہ کچھ ہو، پہنچے گا ضرور۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مشاعرہ شعرا کے نہ آنے کی وجہ سے ٹل جائے۔"

https://www.sheroadab.org/2022/11/Mushayer kisy kahty hain aur mutashayer kisy kahty hain.html

شوکت تھانوی کی تحریر سے اقتباس 

جو ادبی مجلہ اثبات کے مشاعرہ نمبر میں شائع ہوئی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو