نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رول ماڈل والدین* *بچّہ عکسِ والدین*

*رول ماڈل والدین*

*بچّہ عکسِ والدین* 


*عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری*

--------------------


"اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، الله کے نزدیک یہ بڑی نا پسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو ." (الصف:14)

بچّے ہمیشہ اپنے والدین کی نقل کیا کرتے ہیں ۔

Children always copy their PARENTS

جیساوہ دیکھتے، سنتے ہیں ویسا ہی بولتے، سوچتے اور عمل کرتےہیں۔ ہمارا دماغ وہی لوٹاتا ہے جو ہم اس کے اندر ڈالتے ہیں۔یوں ہماری موجودہ حالت ہمارےماضی کی سوچ کا نتیجہ ہے۔اور"مستقبل میں ہم وہی ہوں گے جو آج سوچ رہے ہیں"۔ انسانوں کے پروردگار نے انسان کو فطرتاً کچھ بنیادی جبلّتوں اور صلاحیتوں سے آراستہ کر کے دنیا میں بھیجا ہے۔ان میں انفرادی، اجتماعی، خاندانی، سماجی ،خودتوقیری، خود سپردگی نفرت، رحم، رنج وغم، اثر پذیری، اثر آفرینی، ہمدردی، تقلید، تجسس، استعجاب، فرار، تعمیریت، بھوک، شہوت، شفقت وغیرہ شامل ہیں۔

 ہماری یہ زندگی کچھ لو اور کچھ دو، سیکھو اور سکھاؤ کا عملی نمونہ ہے۔ بچوں پر کھلتی ہوئی دنیا کا نرالاا اور دلچسپ اثرجدیدٹیکنالوجی،انٹرنیٹ ہے۔

سات، سُروں کی آگ ہے آٹھویں سُر کی جستجو


*بچّے کی نشونما کے مراحل* 


(1)طفولیت: (ابتدائی بچپن) پیدائش سے پانچ سال کی عمر تک

(2)بچپن :چھے سے نو سال کی عمرتک-Childhood۔بچوں کو بھر پور پیار کی ضرورت ہوتی ہے ۔

(3)لڑکپن : نو، دس سال سے بارہ تیرہ سال کی عمرتک -Adolessnpermissive ۔اس عمر کے بچّوں پر نظر رکھنے اور توجّہ کی بھر پورضرورت ہے ۔

(4)عنفوان شباب: Teenagers

(نوجوانی) تیرہ، چودہ سال سے اٹھارہ سال کی عمر تکAdulthood. اس عمر کے بچوں کے ساتھ دوستوں جیسا رویہ اپنا نے کی ضرورت ہے ۔


بچّہ عمر کے تمام مراحل میں اپنے والدین کو دیکھتا اور ان سے سیکھتا رہتا ہے۔ وہ اس کے لیے رول ماڈل اپنے ہیروکا کردار ہوتے ہیں ۔

ہمیں اپنے بچّوں کو سمجھنے اور سمجھاتے رہنے کی ضرورت ہے ۔ 


*خوئے دلنوازی*


ایک سینیئر انجینئر جب بھی فون ریسیو کرتے یا فون پر بات کرتے تو کہتے

ہیلو! "میں سینیر انجینئر بول رہا ہوں"۔

 ان کی غیر موجودگی میں جب فون کی گھنی بجی توان کے پانچ سال کے بیٹے نے فون اٹھاتے ہی کہا 

ہیلو! میں "سینیئر انجینئر بول رہا ہوں" ۔

ان مخصوص الفاظ اور محاوروں کا استعمال جو گھر میں بار بار بولے جاتے ہیں ۔بچّے کم عمری ہی میں اس کی نقالی اوران کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس سے الفاظ کے برتنےکے فن کی جادوگری محسوس کر لی جاتی ہے۔بچّے وہی کرتے ہیں جو اپنے والدین کوPracrical کرتا دیکھتے ہیں۔لڑکیاں ویسا ہی کرتیں ہیں جیسا اپنی ماں کو کرتا ہو دیکھتیں ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے دین دار، دین پسند اور آپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں تو بہترین نمونہ عمل ( رول ماڈل) بنیں۔


*مثالیت Idealism* 


رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے


(1) گھر کا ماحول دینی ہو۔والدین فرائض، حقوق کی ادائیگی کی طرف متوّجہ رہتے ہیں ۔

(2) حرام وحلال، جائز وناجائز کا استحضار مقدم رکھتے ہیں ۔

(3)گھر میں اسلامی آداب، طور طریقوں، اذکار و دعائیں اور بول چال کی زبان عمدہ ہوتی ہے۔بھولے سے بھی غیر شائستہ گفتگو، پھوہڑ مذاق، گالی گلوچ ،فحش کلامی، تحقیر آمیز مذاق،غیر ذمہ دارانہ طرزعمل، تصنع اور جھوٹ، بے حیائی، کمتر ،سطحی الفاظ زبان پر نہیں آتے۔

(4) زندگی کے مشاغل اور اوقات کے استعمال میں نظم وضبط Time management اور سلیقہ مندی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔


(5) مکارم اخلاق اور اوصاف حمیدہ تقویٰ ،صبر،توکل،اطاعت،فرمابرداری،عفو ودرگذر، وسعت ظرف، تواضع و انکسار Humbleness، وقار وسنجیدگی، متانت، قناعت، سادگی، میانہ روی، امانت داری فیاضی، خوش مزاجی 

کا عملی نمونہ گھر میں والدین کے کردار سے پیش کیا جاتا ہے۔

(6) گھر میں آپسی مشاورت، حوصلہ افزائی، محبت وہمدردی، مجلسی آداب، حسن ظن، حسن سلوک، جذبہء تشکیر Greatfulness ، غلطی پرمعافی مانگ لینےکا عام رواج ہے۔والدین کھلے دل سے اس پر عملی مشق کرتےہیں ۔صحت مندانہ روابط کے ساتھ پرورش کی جاتی ہے۔

(7) والدین ایک دوسرے کی بات توجّہ سے سنتے ہیں ۔آپس میں جھگڑتے نہیں ۔غیر اپنے گھریلو مسائل کو حکمت سے حل کرتےہیں۔ سودی قرض ،فضول خرچی ،بے جا رسوم وروایات اور کبائر سےاجتناب 

 کرتے ہیں ۔

(8) سب مل کر خاندان کے بزرگوں کا احترام اور ان کی عزّت وتکریم کرتے ہیں ۔ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں سبقت لے جاتے اور خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں ۔

(9)ہمدردی اور اثر پذیری Responsive Parenting کی فضا قائم کر رکھی ہے۔

(10) سوچی سمجھی آزادی، معتدل نظم وضبط ۔بہت سختی نہ بہت نرمی permissive۔اعتدال Authoritativeکی روش۔استدلالReasoning نہ کہ ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ ۔ لتاڑنے، سزا دینے ، طعنے دینے کے بجائے نظر انداز کرنے کا طریقہ ۔عقلی وذہنی قصور سے صرف نظر کرنے والا طریقہ ۔

11) گہری وابستگی Attachment Pearanring ہے۔ بچے اپنے والدین کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں ۔

 اخلاقی قدریں Moral Values,سماجی قدریںSocial Norms and attitude اور ان کا پاس والدین کا سب سے بڑا رول ماڈل ہے۔یہ ان کہی ہے جواپنے زیر نگیں کے لیے ان مٹ نقوش چھوڑتی ہے۔ یہ نقش کف پا ان کے لیےشعور اور لاشعور دونوں مرحلوں میں راہ نما خطوط ثابت ہوتے ہیں۔



*جذبات سے، معیار سے یا خون جگر سے* 


*ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے*


(عبدالعظیم رحمانی کی زیر تصنیف کتاب *پرورش pearanring* سے ایک مضمون) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور