نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بردرس بمقابلہ علماء* نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معزور ہیں ہم ـ قصہء درد سنا تےہیں کہ مجبور ہیں ہم ـ

*بردرس بمقابلہ علماء*

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معزور ہیں ہم ـ 

قصہء درد سنا تےہیں کہ مجبور ہیں ہم ـ

اسلامی شاعر وعبقری شخصیت علامہ اقبال مرحوم نے قوم و ملت کی رہنمائ اپنے اعلیٰ ا فکار وولولہ انگیز اشعار کے ذریعہ کیا ہے ـ اور ملت اسلامیہ کو احساس دلا یا ہے ـ کی اپنے من میں ڈوب جا پاجا سراغ زندگی ـ میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن ـ 

اپنی اصلاح خود کرنی چاہئیے ـ خیر وفلاح کا کام خود انجام دینا چاہئیے ـ لیکن آج ہرشخص دوسروں کو سدھارنے میں لگا ہے ـ دوسروں کے آنکھ کا تنکا دکھ جاتا ہے ـ لیکن اپنے آنکھوں کی شہتیر نظر نہیں آتی ـ دوسروں کوسئیات برائیوں سے بغض وحسد کینہ وکپٹ عناد ودشمنی سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی ہے ـ لیکن ہم شب وروز غیبت ، چغلی ،بہتان ـ فتنہ وفساد میں مبتلاء رہتے ہیں ـ نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں ـ جہاں دوچار لوگ جمع ہوتے ہیں ـ چاہے علماء ہوں یا غیر علماء فورا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں الزامات واتہامات لگانے میں پیش پیش رہتے ہیں. اکثر مجلسوں کا حال یہی ہے ـ اور ملی زوال و انحطاط پر تقریروں میں تحریروں رونا روتے ہیں ـ وہ علماء بھی ان جرائم وکرائم میں مبتلاء ہیں جو منبر ومحراب پر راگ الاپتے رہتے ہیں ـ جلسے جلسوں کانفرنسوں میں گھنٹو ں تقریریں کرتے ہیں ـ جنت وجہنم کی سند تقسیم کرتے ہیں ـ بہر حال علماء حق اس سے مستثنیٰ ہیں ـ گویا اس شعر کے بر عکس عمل کرنا روز مرہ کا ہمارا طرہ امتیاز بن گیا ہے ـ ہم اپنے من میں نہ ڈوب کر دوسروں کے من میں ڈوب کر اوج ثریا پر پہنچنا چاہتے ہیں ـہم اپنے اندر تبدیلی لانے کے بجائے دوسروں کو سدھارنے میں لگے ہیں ـ ہماری اکثر مجلسوں کا آغاز وانجام ایک دوسرے کی برائیوں سے ہو تا ہے ـ یہ انتہائ شرمناک وافسوس ناک بات ہے ـ جنت جہنم کی سرٹیفکٹ تقسیم کرنے میں نام نہاد علماء موجودہ مصنوعی داعی ومبلغ (بردرس) ذمہ دار ہیں ـ کسی بھی مسلے میں ٹانگ اڑانا اور من مانی فتوے صادرکرناغیبت ،چغلی ،اور بہتان کی غذاء کھانا جاسوسی کرنا آج ہماری عادت بن چکی ہے ـ 

 مولانا ابولکلام آزاد مرحوم تاحیات علماء سو سے عاجز تھے ـ علماء سو کے فتنے دین ومذہب سماج ومعا شرے کے لئیے انتہائ مہلک وتباہ کن ہیں ـ علماء سو کے بارے میں مولانا آزاد کا کہنا تھا کی جس طرح کتے آپس میں لڑتے ہیں ہڈیاں پھینکو تو ایک دوسرے کو ہڈیوں کے لئیے کاٹ کھاتے ہیں ـ اسی طرح سے علماء سو بھی لڑتے ہیں ـ ذاتی مفاد کے لئیے چندے کے لئیے ایک دوسرے پر ( جبہ قبہ ودستار والے علماء) الزامات واتہامات لگانے سے گریز نہیں کرتے ـ اور سینٹھوں اور سرمایہ داروں سے زیادہ چندہ پانے کے لئیے ـ گھٹیا طریقے سے دوسرے غیر موجود مولویوں کی کردار کشی کر کے خوب دولت وثروت لوٹتے ہیں اگر خودمنظر پر نہیں آتے تو اپنے چیلوں اور دلالوں کو فتنہ پھیلانے میں آگے کر دیتے ہیں ـ یہ لوگ فتنہ وفساد کو ہوا دینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے ہیں ـ ان کی تمرد وسر کشی میں شیطان بھی شرما جائے ـ "اس وقت دینی دعوت وتبلیغ کے نام پر ایسے ہی لڑتے ہیں ـ "دعوت وتبلیغ  ، دروس ومحاضرات اور دینی جلسوں اور اجتماعات كا مقصد علم نبوت كی روشنی میں عوام الناس کی تعلیم وتربیت،انہیں اللہ کے قریب کرنا، ان کے دلوں میں اللہ کی عظمت، محبت اور رحمت کی امید ، خشیت وخوف راسخ کرنا ، انہیں صراط مستقیم پر گامزن رکھنا ہے  ـ لیکن   عصر حاضر میں عوامی جلسے واجتماعات   اس سےخالی نظر آتے ہیں  ـ جس  کی بینادی وجہ   عوامی خطباء حضرات کا سامعین کو ہنسانا اور عوام کی شاباشی وصول کرنا ہے ـ نوٹنکی بازی سٹہ بازی آج کے نام نہاد مبلغین ومقررین کرتے ہیں ـ دو گھنٹہ ایک گھنٹہ راگ الاپتے ہیں ـ اور اپنے فالورس کو خوش رکھنے کے لئیے یہ لوگ بہت سے حربے استعمال بھی کرنے میں تامل نہیں کرتے ـ ان کو صرف نذرانے اور پیسے چندے سے ہی مطلب ہے ـ کسی بھی اجلاس کو دیکھ لیں یہ میراثی لوگ اسٹیج پر جاکر راگ الاپنے کے بعد ایک منٹ اسٹیج پر رکنا گوارا نہیں کرتے فورا کوئ نہ کوئ بہانہ بنا کر رفو چکر ہوجاتے ہیں ـ جس کی وجہ سے  ایسے اجتماعات  اور جلسوں کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں ،عوام میں علم  کی اہمیت ختم ہوگئی  ہے ـ جیدعلماء کامقام جاتا رہا ، لوگ سنجیدہ اور علمی دورس سننے کی طاقت نہیں رکھتے، ان کے نزدیک ’’ مزے مزے  کی کہانیاں، افسانے، وقتاً فوقتاً چٹکلے ، جھوٹے اور منگھڑٹ واقعات، مخالفین پر نازیبا جملے ، تقریر میں انداز ترتم‘‘جب تک یہ سب باتیں تقریر کا حصہ نہیں بن جاتیں تقریر بے سود اور بدہ مزہ سمجھی جاتی ہے۔ان کی ڈھٹھائ کا عالم یہ ہے کی قرآن کی غلط تو ضیح وتشریح کرتے ہیں ـ اور تقریر کو لذت دار بنانے سامعین کو خوش کرنے کے لئیے من گڑھنت حدیثوں کو بیان کرنے تک نہیں باز آتے ـس کے علاوہ اور کئی خرابیاں موجود ہیں ۔" اس وقت ملک ہندستان کے بڑے شہروں میں رہنے والے علماء اور برادرس میں بڑے شدو مد سے یہ بحث چھڑی ہوئ ہے ـ کی اصل داعی ومبلغ کون؟ سب سے زیادہ فالورس کس کے ہیں؟ کچھ علماء یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کی موجودہ دور کے بردرس داعی ومبلغ امت کے لئیے بہت بڑا فتنہ ہیں ـ ان سے شرو ر وفتن ہی پھیلتے ہیں ـ برادرس نے فتنے پھیلا رکھے ہیں ـ غلط سلط فتوے صادر کر کے سماج میں بے چینی پیدا کر رہے ہیں ـ خاص طور سے نوجوان گمرہی کے شکار ہو رہے ہیں ـ نوجوانوں میں دین سے برگشتگی کی دعوت دے رہے ہیں ـ حق و کون ناحق کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے ـ نام نہاد داعی ومبلغ برادرس خاص طور سے تین شہروں میں سب زیادہ پائے جاتے ہیں اور دعوہ سینٹرس بھی زیادہ تر انہیں شہروں میں قائم ہیں ـ ممبئ، بنگلور، حیدرآباد ان متذکرہ شہروں میں سرمایہ دارطبقہ بھی زیادہ تر ہیں ـ ان سے پیسہ وصولی کرنے میں آسانی ہوتی ہے ـ دعوۃ سینٹر والے اب تو علاقائ وصوبائ جمعیتوں (اہل حیث) کا اپنے پوسٹروں ، اشتہاروں اور سوشل میڈیا پر ڈالے جانے والے ٹکڑوں میں نام کا دھڑلے سے استعمال بھی کرنے لگے ہیں ـ جمعہ کے خطبات کی لسٹ شہروں دیہاتوں اور قصبوں کے علماء کو معمولی نذرانوں پر راضی کر کے سرمایہ داروں کو دکھا کر خوب سرمایہ وصولاجاتا ہے ـ کی دیکھو میرا سینٹر شہروں کے علاوہ قصبوں اور دیہاتوں تک کام کر رہا ہے ـ ممبئ کے سینٹھوں کو باور کرایا جاتا ہے کی یہ دعوہ سینٹر بہت کام کر رہا ہے ـ جمعیت اہل حدیث بھی شامل ہے ـ جبکی منظر میں کچھ اور پس منظر میں کچھ اور ہوتا ہے ـ  

جمیعہت اہل حدیث کے ذمہ دار جن دعوہ سینٹروں کو جمعیت کا نام استعمال کرنے دیتے ہیں ـ وہ ذاتی مفاد دباؤ اور مصلحت کی بنیاد پر ہے ـممبئ معاشی راجدھانی ہے ـ یہاں روپئیے پیسے کی ریل پیل ہے ـ بس پیسہ بٹورنے کا فن ہو اور آئیڈیا ہونا چاہئیے ـ جمعیت اہل حدیث کا نام شامل کر کے آج ممبئ کے دعوۃ سینٹر لاکھوں کروڑوں روپئیے وصولے جاتے ہیں ـ لیکن حقیقی ضرورت مند محروم ہیں ـ ایک بات اور ہے ـ ٹوپی داڑھی میں بھی بڑی کشش ہے ـ چاہے جس نظریہ کا ہو فاسق فاجر زندیق وملحد ہو ـ اگر بظاہر وضع قطع داڑھی ٹوپی ہے جبہ ودستار ہو تو ان پر دولت کی بارش ہوتی ہے ـ کتنے ایسے ہیں جو اونچی اونچی ٹوپیوں اور لمبی لمبی داڑھیوں سے جبہ ودستار سے عوام کو مرعوب کئے ہیں ـ جبکہ حقائق کچھ اور ہیں ـ

ـ *بردرس کے جنم داتا ڈاکٹر ذاکر نائک*

برادرس کے اگوا قائد اور جنم داتا ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں ـ ذاکر نائک نے اسلامک دعوت وتبلیغ کے نام پر ممبئ میں دھاک بیٹا دی تھی نوجوانوں کو گرویدہ بنا لیا تھا ـ لوگ ان پر دیوانہ وار فدا بھی تھے ـ رفتہ رفتہ انہوں نے ممبئ پر اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لیں تھیں کی ان پر پیسہ لٹانے والوں کی لائن لگنے لگی ـ ذاکر نائک جنہوں نے وقت کو بھانپ لیا تھا ـ کہ الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کا سب سے بہتر وموزوں وقت ہے ـ پیس ٹی وی قائم کر کے انہوں نے نہ صرف ہندستان سے بلکہ سعودی اور گلف سے کئ سو کروڑ وصولی کی ـ یہ عاز اس وقت کھلا جب پابندی لگنے کے بعد کم وبیش ۵۰۰ سو کروڑ سے زیادہ بینکوں میں منجمد ہوگئے ـ نائک صاحب دعوت وتبلیغ کو اپنا پیشہ بنا لیا ـ اور اس مشن میں عالمی سطح پر کامیاب بھی رہے ـ کئ سو کروڑ کی ممبئ ومضافات میں بلڈنگیں و پراپرٹی خریدیں ـ اور پلاٹ بھی خریدے ـ ذاکر نائک نے دعوت کے طریقہء کار کو ہی بدل کر رکھ دیا ـموٹی موٹی رقمیں دیکر یورپ اور افریقہ کے لوگوں کو بلاتے تھے ـ اور دس روزہ کانفرنسیں ہوتی تھیں ـ ہندستان کے جید علماء بھی بلائے جاتےـ اور جو علماء مدعو نہیں کئے جاتے تو ان کی مخالفت سب سے زیادہ انہیں کی طرف سے ہوتی تھی ـ نائک صاحب کے یہاں بھی ایسے چاپلوس ، مفاد پرست ، خود غرض لوگ تھے ـ جو مدنی اور مکی تھے ـ وہ کسی اور کو قریب نہیں آنے دیتے تھے ـ 

جن لوگوں کو ذاکر نائک نے پیس ٹی وی جیسا بڑا اسٹیج دیا وہ مقرر اعظم بن گئے ـ ان کو اتنی شہرت ملی کی یہ پیس ٹی وی کے مقرر اعظم ہیں ـ پیس ٹی وی بند ہونے کے بعد بھی آج نام نہاد مقرر وداعی اسی کا واسطہ دے کر بڑی بڑی رقمیں وصول رہے ہیں ـ اور مختلف ناموں سے چندہ بھی کر رہے یں ـ ممبئ اور اس کے علاوہ کئ شہروں میں ذاکر نائک اور پیس ٹی وی کی دھاک بیٹھی ہےـ اس کے نام پر یہ مقرر آج بھی عوام کو مرعوب کئیے ہیں ـ کتنے مدنیوں مکیوں کو دیکھا جا سکتا ہے ـ اور اگر کسی وجہ سے یہ مدنی داعی الگ ہوئے تو ذاکر نائک پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے ـ جب تک وہ وہاں تھے تو ذاکر نائک وقت کے سب سے بڑے داعی تھے ـ اور جیسے نکلے تو ان کی خوبیاں عیوب ونقائص میں بدل گئیں ـ ذاکر نائک دجال ہے ـ فتنہ ہے ـ ان کا اسٹیج دجالی بن گیا ـ 

ذاکر نائک کی مقبولیت شہرت اور دولت کی ریل پیل دیکھتے ہوئے کئ بردرس اور دعوہ سینٹرس وجود میں آگئے ـ اور انہیں بظاہر کامیابی بھی ملی ـ ممبئ بنگلور حیدرآباد میں کئ دعوہ سینٹرس ہیں ـ جن کا سالانہ کئ سو کروڑ کالین دین ہوتا ہےـ اور کچھ سینٹھ بھی شراکت دار ہیں ـ باقاعدہ بزنیس بھی ہوتی ہے ـ دعوت وتبلیغ کے نام پر بہت کچھ ہوتا ہے ـ کسی نے سچ کہا ہے کہ ـ

شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس

بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے ـ 

حضرت ابو ہریرہ ؓ سےروایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: عنقریب لوگوں پر دھوکے سے بھر پور سال آئیں گے۔ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا ۔

 بد دیانت کو امانت دار سمجھا جائے گا اور دیانت دار کو بد دیانت کہا جائے گا۔

 اور رُوَیْبِضَہ باتیں کریں گے، کہا گیا: رُوَیْبِضَہ (کا مطلب) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: حقیر آدمی عوام کو معاملات میں رائے دے گا۔

تشریح 1۔ معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لیےضروری ہے کہ اچھی عادات کی حوصلہ افزائی اور بری عادتات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔2۔جب نیک دیانت دار آدمی کو اس کا جائز مقام نہ دیا جائے بلکہ جھوٹے بد دیانت کی خوش نما باتوں پر اعتماد کرلیاجائے تو معاشرے کا م کوئی شعبہ انحطاط سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔3۔موجودہ معاشروں کے بے شمار مسائل کی وجہ سچ اور دیانت داری کا فقدان ہے۔علماء کو چاہیے کہ ان کے فروغ کی کوشش کریں۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 4036)منقول 


*پیس ٹی وی کے ورکرس آج کے سب سے بڑے داعی ومبلغ*

آج پیس ٹی وی کے معمولی داعی ومبلغ بھی ممبئ اور دیگر شہروں میں دعوہ سینٹر بنا کر زبردست وصولی کر رہے ہیں ـ پیس ٹی وی پر پابندی کیا لگی ان داعیوں کی چا ندی ہوگئ ـ چاہے مدنی ہوں یا مکی یا برادرس سب نے ملت سے خطیر رقم وصولا ہے اور وصول بھی رہے ہیں ـ  

ایک دعوہ سینٹر پٹیل صاحب کا ہے ـ صرف یو ٹوپ ہے اسے چینل بتا کر ممبئ گلف میں خوب وصولی کی جارہی ہے ـ ماشاء اللہ ممبئ پونہ کے سینٹھوں نے اپنی دولت کے دہانے کھول دئے ہیں ـ جبکہ شوبازی وشعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں ـ کرلا سینٹر سے کچھ کام ہو رہا ہے ـ ہاں افراد کی کثرت بتا کر چندہ وصولنے میں آسانی ہوتی ہے ـ اب تو ایک یونیورسٹی کے نام پر کروڑوں روپئیے وصولے جا رہے ہیں ـ جس میں مزکورہ دعوہ سینٹر کا اندورنی حصہ داری اور شراکت ہے ـ یہ ممبئ کے سیٹھوں سے وصولی کا بہترین حکمت عملی و آئیڈیا ہے ـ اس میں کئ فنکار شامل بھی ہیں ـ داڑھی ٹوپی والے اس میں بھی پیش پیش ہیں ـ اور کچھ سینٹھوں کو بھی شامل کر لیا ہے ـ جو جھولی پھیلانے میں ماہر ہیں ـ 

اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کی ـ برادرس کو بڑھاوا دینے والے علماء ہی ہیں ـ جن میں مدنی مکی پیش پیش ہیں ـ اور وہ علماء جن کو ذاتی مفاد عزیز ہے ـ جنہیں چاپلوسی تملق بازی کے سوا کچھ نہیں آتا ہے ـ جو چینلوں اور سوشل میڈیا پر آنے کے لئیے بیقرار رہتے ہیں ـ کچھ نئے مدنی بھی شامل ہیں ـ اگر ان کو کسی ایسی مسجد میں یاپروگرام میں بلایا جائے جہاں چندے کی اپیل نہ ہو پاءے یا سینٹھ نہ ہوں تو حیلہ بہانہ کر کے وہاں نہیں جاتے ہیں ـ اور جس علاقے میں سرمایہ دار ہوں ـ یا سینٹھ ہوں یا چندے کی اپیل پر لاکھ پچاس ہزار کی وصولی ہو سکے یا بھر پور نذرانے ملیں تو وہاں ہر قیمت پر پہنچتے ہیں ـ برادرس کو بھی چاہئیے کی اللہ کے واسطے فتوے صادر نہ کریں اور نہ ہر مسلے میں ٹانگ اڑائیں، خود گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمرا کریں ـ 

*ایسا بھی ہوتا ہے*

بڑے ادارے (بلڈنگوں والے) کے مچنداور سینٹھوں کی خصیہ خبرداری ـ 

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کی جو سینٹھ چندہ دیتا ہے ـ اس کی چاپلوسی اس قدر کی جاتی ہے ـ کی ناقابل بیان ہے ـ ممبئ پونہ کے اگر کسی نے کسی کو زیادہ چندہ دے دیا تو یہ چندہ والے علماء ایک دوسرے کی برائ اتنی کر ڈالتے ہیں اس سینٹھ کو بدظن کر کے ہی دم لیتے ہیں ـ پھر وہ سینٹھ بد ظن ہوجاتا ہے ـ 

*اللہ کے ڈر سے کم لوگوں کے دباؤ نام و نمود ونمائش کے لئیے چندہ*

یہ حقیقت ہے ـ کی ممبئ کے اکثر سینٹھ چندہ انہیں اداروں کو دیتے ہیں جہاں ان کی خوب خوب شہرت ہو عزت ہو اور ان کے جانے پر منتظمہ کمیٹی اور ان کا عملہ صف باندھے کھڑا ہو ـ اور انہیں اداروں کا باقاعدہ دورہ بھی ہوتا ہے ـ زکوٰۃ صدقات عطیات وہیں دئے جاتے ہیں ـ جہاں بلڈنگیں اور آراضی زیادہ ہوتی ہیں ـ جہاں بچوں کو سب بچوں کو یتیم نادار بتاکر اندرون وبیرون ملک سے موٹی موٹی رقمیں وصول کی جا تی ہیں ـ اور بچوں سے خوراکی فیس بھی جبرا لی جاتی ہے ـ جبکہ انہیں بچوں کو دکھا کر تعدا بتا کر خوب چندہ بٹورا جاتا یے ـ 


 جو ادارے چھوٹے ہیں جہاں عالیشان بلڈنگیں نہیں ہیں لیکن تعلیم اچھی ہوتی ہے ـ بچوں کے کھانے رہنے کامعیار بہتر ہو تا ہے ـ وہاں ان کو بدنام کر کے انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے ـ اور سینٹھوں کو بد ظن ومتنفر بھی کر دیا جا تا ہے ـ اللہ کے خوف وڈر سے کم ہی لوگ چندہ دیتے ہیں ـ ریا نمود نمائش شہرت کے لئیے زیادہ تر ـ

*دعوہ سینٹرس کی مخالفت کیوں اور کس لئیے؟*

کچھ دنوں سے دعوہ سینٹرس کی مخالفت بڑی شدت سے ہو رہی ہے ـ مخالفت کے کئ اسباب وعلل ہیں ـ اس کے پیچھے کن لوگوں کا ذہن کا ر فر ما ہے؟ کون لوگ ہیں جو فتنہ وفساد کو ہوا دے رہے ہیں؟ اور دعوہ سینٹروں کو شروفساد کا منبع قرار دیا جا رہا ہے ـ برادرس کے فتنے بڑھ ہی رہے ہیں ـ 

 بلا شبہ یہ سب پیسے کا کھیل ہے ـ نرالے مورے بھیا ـ بردرس کا فتنہ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ـ جمعیت اہل حدیث کا نام کچھ لوگوں کو استعمال کرنے کی اجازت دیکر غلط کیا جارہا ہے ـ اس سے عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے ـ کی جمعیت بھی شامل ہے ـ 

*برادرس فتنہ ہیں*

برساتی میڈھکوں کی طرح اس وقت بردرس کے نام سے نام نہاد داعی ومبلغ پیدا ہوگئے ہیں ـ ہر روز نت نئے فتنے پیدا کرتے اور پھیلاتے رہے ہیں ـ ان برادرس کی پزیرائ اورمقبولیت میں علماء کرام کا ہی ہاتھ ہے ـ چند علماء کو رکھ کر ہی یہ برادرس بڑے بڑے چندے اٹھاتے ہیں ـ اور کچھ کمیشن خور علماء برادرس کے دعوہ سینٹر میں لگ کر ممبئ اور دیگر بڑے شہروں میں بھر پور پیسے کی وصولی کی جاتی ہے ـ اب تو یونیورسٹی کے نام پر خوب دولت بٹوری جارہی ہے ـ باقاعدہ سوشل میڈیا اور اپنے یو ٹوپ چینل پر امداد کی اپیل کی جاتی ہے ـ اور چینل کے نام پر ملک و بیرون ملک میں زبردست وصولی بھی کی جاتی ہے ـ کچھ دنو ں تک تو ممبئ ومضافات کے سیٹھوں اور ان کے جوان اولادوں کو گمراہ کیا گیا کی چینل زبردست خسارے میں ہے ـ آنا" فانا " کروڑوں روپئے وصول کئے گئے ـ چینل نہ رہ کر یوٹوب بن گیا ـ جس کاخرچ معمولی آتا ہے اسے غیر معمولی پیش کر کے ہر ماہ لاکھوں روپئے وصول کئیے جاتے ہیں ـ اور ملت کا قیمتی سرمایہ پانی میں بہایا جا رہا ہے ـ بردرس کی اتنی مقبولیت ہو گئ ہے ـ کی ان کے اعلان پر کروڑوں کا چندہ بھی ہوتا ہے ـ اور باقاعدہ جید علماء کے خلاف سینٹھوں سے شکایتیں بھی کی جاتی ہیں ـ سوشل میڈیا فیس بک پر یہ بردرس فتویٰ دینے میں پیش پیش بھی رہتے ہیں ـ 

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ـ ـ زندگی کیا چیز ہے ـ ا

اے زندگی تجھے کیا کہوں 

میرے ساتھ تو نے کیا کیا..!!

جہاں آس کا کوئی دیا نہیں

مجھے اُس نگر پہنچا دیا

نہ میں بڑھ سکوں، نہ میں رُک سکوں نہ ہی دل کی بات سمجھ سکوں

نہ کسی کو کچھ بھی کہہ سکوں 

تجھے کیا کہوں تو نے کیا کیا..!!

مجھے منزلوں کی خبر تو دی

پر راستوں کو الجھا دیا 

اے زندگی تجھے کیا پتا 

یہاں کس نے، کس کو گنوا دیا

اے زندگی تجھے کیا کہوں 

میرے ساتھ تو نے کیا کیا..

کچھ لوگ اس شعر کے مصداق ہیں ـ اور کچھ اس کے برعکس ہیں ـ 

اللہ ہمیں اصلاح کی توفیق دے 

 ازقلم: اسرار احمد محمدی چاہ رہٹ جامع مسجد دہلی

بتاریخ: ۱۵ اکتوبر ۲۰۲۲  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو