نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بسواس کا اداریہ 15.11.2022 Editorial of Biswas Urdu

 Editorial of Biswas Urdu

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

                                                                                                منور رانا

            قرآن ماں باپ کے بارے میں کہتا ہے: - تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کرو اور ماں ۔ باپ کے ساتھ اچھا برتاو کرو. اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپہ کی منزل پر پہنچ جائیں تو انہیں "اف" تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے مہربانی سے بات کر۔

Editorial of Biswas Urdu

            زمین ایک قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہمیں رزق فراہم کر رہی ہے ہم مکان بناتے ہیں تو زمین ہمیں مکان بنانے سے منع نہیں کرتی، زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اگا سکیں، اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں، سورج اور چاند ہماری خدمت گذاری میں مصروف ہیں، باقاعدہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میوے پکتے ہیں الغرض کائنات کا ہر جز اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری اور غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ ایک تسخیری عمل ہے جو سب کے لئے یکساں ہے۔

            زمین کی خالص تابکاری، جسے نیٹ فلوکس کہا جاتا ہے، ماحول کے اوپری حصے میں آنے والی اور جانے والی توانائی کے درمیان توازن برقرار رکھتی ہے۔ یہ کل توانائی ہے جو آب و ہوا کو متاثر کرنے کے لیے دستیاب ہے۔ جب سورج کی روشنی ماحول کے اوپری حصے میں داخل ہوتی ہے تو توانائی حرکت میں آتی ہے۔

            دوستو اسی لئے زمین کو بھی ماں کہا گیا ہے۔  حقیقی ماں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے وہ ہمیں جنم دیتی ہے۔ اور زمین ہمیں سامان زیست بہم پہنچاتی ہے۔ظاہری طورپر کاشتکاری کے ذریعہ، اناج، سبزی، پھل، پانی وغیرہ کے علاوہ ان ظاہری انکھوں سے نہ نظر آنے والی توانائی بھی زمین سے ملتی ہے۔ جوان مذکورہ بالا ترکاری اور پھلوں سے بھی زیادہ ضروری ہے اور اہم ہے۔

  ہم مکمل طریقے سے برقی مشینوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے اندر ایک برقی رو بہتی ہے جس کو ہم برقی پیمائش کے آلات سے دیکھ سکتے ہیں۔  جو ہمارے ماحول میں روز افزوں زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ کبھی 3G تھا اب 5G اور نا جانے کتنےG   آئیں گے۔ گھروں میں موجود تمام برقی آلات جیسے فرج، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، موبائل، لیاپ ٹاپ اور ایسے کئی سارے برقی آلات سے ہم گھرے ہوئے ہیں۔ جس کے ذریعہ برقی رو نکلتی ہے اور ہمارے جسموں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ یہ برقی آلات سے نکلنے والی برقی رو ہمارے جسم کے مدافعیت نظام کی فعالیت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اور ہمارے جسم کے خود شفایابی کی صلاحیتوں کو بےحدمتاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تمام تر کوششوں کے باجود بھی امراض سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے۔  اور دن بہ دن پیچیدہ امراض کا نشانہ بن رہے ہے۔ مارہرین و اطباع بھی ان امراض سے نا آشنا ہیں اور اس کے تدارک کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔

            ایک تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسائل سے کیسے اپنے آپ کو بچایا جاسکتا ہے۔ اور ان برقی آلات سے نکلنے والی برقی رو(ترقی تابکاری) سے حتہ الامکان کیسے بچا جاسکتا ہے۔  اس کیلئے ہمیں اپنے آپ کو زمین سے جوڑے رکھنا ہوگا۔  ننگے پاؤں زمین پر یا ہری گھانس پر چلنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو زمین سے جوڑے رکھنا ہوگا۔

            آپ دیکھیں گے کہ زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ کو زمین سے بچانے کیلئے جوتے، چپل، اور سینڈل کا استعمال کرتی ہے۔ اور وہ بڑی بڑی عمارتوں میں قالین بچھا کر رہتی ہے۔ اپنے جسم کو زیادہ سے زیادہ زمین  اور سورج کی روشنی اور گرمی سے بچائے رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کو زمین کی وہ طاقتیں ، سورج کی گرمی میسر نہیں آتی جو انسان کی صحت مند زندگی کیلئے نہایت ہی ضروری ہیں۔  جس کی وجہ سے انسان کی قوت مداعافیت کم سے کمزور ہوتی جارہی ہے۔

Editorial of Biswas Urdu

            اس کے متعلق ڈاکٹر بسواروپ رائے چودھری نے ایک مکمل کورس ہی متعارف کروایا ہے جسے zvt یعنی zero volt therapy کہا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی پر منحصر ایک ہسپتال ہی کھولا گیا ہے۔ جہاں صرف اور صرف zvtکے استعمال سے ہی مختلف امراض کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ دواخانے اور اس ٹکنالوجی کی تفصیلات کیلئے یہ ویڈیو زرور دیکھیں(https://www.youtube.com/watch?v=IHBTw5v9fo8) اس کورس کو کرنے کیلئے آپ اپنے آپ کو اس لنک پر جاکر رجسٹر کواسکتے ہیں۔ (https://biswaroop.com/zvt/)

                                                                                                مدیر: ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور