غزل
یہ ضروری ہے نظر سب کی ٹٹولی جائے
بعد میں زلف سخن بزم میں کھولی جائے
بول اٹھے گا ہر اک حرف سخن کا اپنے
ہاں مگر نوک قلم دل میں ڈبو لی جائے
روشنی اتنی زیادہ ہے گلی میں اس کی
کو ششیں لاکھ کروں آنکھ نہ کھولی جائے
اس کو وحشی بھی سمجھ لیتے ہیں آسانی سے
پیار کی بولی کسی بولی میں بولی جائے
اعتبار اپنا بہر حال وہ کھو دیتی ہے
بات جو دل کے ترازو میں نہ تولی جائے
وقت گزرا تو کوئی فیض نہ حاصل ہوگا
فصل وہ فصل ہے جو وقت پہ بو لی جائے
نور ملتی ہے کہاں نرم مزاجی سب کو
چیز اچھی ہے طبیعت میں سمو لی جائے
(سید محمد نورالحسن نور )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں