نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرزا یاسین بیگ کے قلم سے نکلی ایک مسرور کن اور مسکراہٹیں بکھیرتی مزیدار تحریر بڑھاپا

مرزا یاسین بیگ کے قلم سے نکلی ایک مسرور کن اور مسکراہٹیں بکھیرتی مزیدار تحریر


.                         بڑھاپا

@

✍️ بڑھاپا پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ھی دھکے دینے سے جاتا ھے.


✍️ یہ مشرق میں مرض اور مغرب میں زندگی انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ھے۔


✍️ بڑھاپے  میں دانت جانے لگتے ہیں اور دانائی آنے لگتی ھے۔


✍️ اولاد اور اعضاء جواب دینے لگتے ہیں۔


✍️ بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ھے۔


✍️ بڑھاپا آتا ھے تو مرتے دَم تک ساتھ نبھاتا ھے۔


✍️بڑھاپے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ھے کہ حسین لڑکیاں ’انکل‘ کہہ کر پکارنے لگتی ہیں.


✍️انسان دو چیزیں مشکل سے قبول کرتا ھے، اپنا جرم اور اپنا بڑھاپا.


✍️ ھمارا بچپن دوسروں کی دلجوئی اور خوشی کے لیئے ہوتا ھے۔ جوانی صرف اپنے لیئے ہوتی ھے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیئے.


✍️ جب بار بار اللّٰہ ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہو چکے ھیں۔


✍️ بڑھاپے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ھے کہ آپ بیضرر ہوتے جا رھے ہیں. اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے.


✍️ جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں انکل کہہ کر پکارنے لگیں تو تردد سے کام نہ لیں.


✍️ تنہائی پاتے ھی غم بھلانے کے لیئے سیٹی بجائیں ، کیوں کہ آپ سیٹی ھی کے قابل رہ گئے ہیں۔


✍️ بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ھے تو اس کا مطلب ھےکہ آپ نے ان کی تربیت اور اپنی لائف انشورنس پر پورا دھیان دیا ھے.


✍️ "مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا"، یہ ایک نہیں ہزاروں بوڑھوں کا قول ھے.


✍️ بوڑھا ہونا الگ چیز ھے، بوڑھا دکھائی دینا الگ.


✍️ ھر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہوتا ھے۔


✍️ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں ، اس کے لئے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ھے۔


✍️ دنیا نہ چل پاتی اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا.


✍️ بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھےکہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں.!

سوائے سیاست دان کے.


✍️ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ھے۔


✍️ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندا بالکل مندا ہوتا۔ 


✍️ بوڑھوں کو بندی اورخاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ھے۔


✍️ عورتیں بوڑھی تو ہوتی ہیں مگر ان کی عمر اکثر جوانی والی ہی رہتی ھے۔


✍️ مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ھے نہ جسم... ہمارے ملک میں جو عورت اپنی عمر پینتیس سال بتاتی ھے.. وہ پچاس سال کی دکھائی دیتی ھے...


✍️ دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ھے. اس میں آپ کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی.. جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ھے.


✍️ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ھے، بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد۔


✍️ ہر بچے کے اندر ایک بوڑھا چھپا ہوتا ھے، شرط یہ ھے کہ وہ عمر لمبی پائے.


✍️ کیا باکمال دور ھے یہ آغازِ بڑھاپا بھی.! بچپن میں ھم ٹیسٹ دیا کرتے یا ٹیسٹ دیکھا کرتے تھے. اب ڈاکٹر ہمارے لیئے ٹیسٹ لکھ رہا ھے.

https://www.sheroadab.org/2022/11/Mirza Yasin Baigs pen is a delightful and smile-scattering delicious writing.html

✍️ ہر عمر رسیدہ کے لیے یہی پیغام ھے کہ دنیا سے انجوائے کریں قبل اس کے کہ دنیا آپ سے انجوائے کرے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور