نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جسم پر تل اور مسے دور کرنے کا نسخہ

جسم پر تل اور مسے دور کرنے کا نسخہ

*********************************

صرف 15 منٹ لگائیں مسے خشک ہو کر جھڑ جائیں گے۔ 

اس کے استعمال میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ ہی جلد پر کوئی نشان رہتا ہے۔ 

ترکیب تیاری۔۔۔

ٹوتھ پیسٹ کولگیٹ سفید رنگ تھوڑا سا۔

روغن ارنڈ آدھی چمچ چھوٹی

سوڈا بائی کارب تھوڑا سا آدھی چمچ 

ان تینوں چیزوں کو کسی پیالی میں ڈال کر اچھی طرح سے مکس کریں تاکہ یکجان ہو کر پیسٹ بن جائے۔ بس تیار ہے

ایک سٹک روئی کے ساتھ لگا کر مطلوبہ مقام جہاں تل یا مسوں موہکوں پر لگائیں اور 15-20 منٹ لگا رہنے دیں۔ مسوں کو سکیڑ کر جڑ سے ختم کرتا ہے۔ 

چھوٹے مسوں پر تھوڑا ایک ڈراپس اور بڑوں پر زرہ زیادہ لگائیں۔ 

یہ پیسٹ جب بھی بنانا یا لگانا ہے روزآنہ نیا فریش بنانا ہے اور استعمال کرنا ہے۔ انگلیوں سے بھی لگا سکتے ہیں۔ 

تھوڑی سی سنسیشن چند سکینڈ ہوگی گھبرانا نہیں۔ ہفتے میں تین سے چار مرتبہ استعمال ضرور کرنا ہے اور بعد پانی سے دھو لیں۔

اگر چھوٹے مسے ہیں تو دو تین بار استعمال سے ہی جھڑ جائیں گے۔ اگر بڑے اور پرانے مسے ہیں تو آپ کو دوبارہ رپیٹ کرنا پڑے گا پریشان نہ ہوں مسے دور ہو جائیں گے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور