نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی

السلام علیکم... آج 18 دسمبر... 


*** نامور شاعر و ادیب، محقق ،تنقید نگار،مدیر ماہنامہ تعلیمی سفر و سہ ماہی قرطاس و قلم کی آج یومِ پیدائش ****

Dr. Muhammad Khaliluddin Siddiqui

نام : ڈاکٹر محمد خلیل الدین صدیقی

ولدیت : قاضی محمد قائم الدین صدیقی

قلمی نام : ڈاکٹر خلیل صدیقی

تخلص : قاضی

تاریخ پیدائش : 18 دسمبر 1971

مشغلہ : درس و تدریس و صحافت 


*** تعلیمی لیاقت ***

ایم اے (اردو) گولڈ میڈلسٹ 

ایم اے(عربی )

ایم اے (مراٹھی )

ایم اے (تاریخ )

بی ایڈ(اردو، ہسٹری )

ایم ایڈ(اسکول مینجمنٹ )

B. J. M. S

 ( بیچلر آف جرنلزم اینڈ میڈیا سائنس )

پی ایچ ڈی (دکنی ادب)

نیٹ(NET)

ڈی لٹ (جاری)

فاضل دینیات دیوبند

ادیب کامل، معلم اردو(علی گڑھ ) ہندی ودوان، الہ آباد


 ------ مطبوعات -------

1) نثر پارے (بچوں کا ادب)


2) اقراء (تعلیمی مضامین )


3)چھوہارے (بچوں کا ادب)


4) اقوالِ حسنہ (اقوال زریں )


5) بیاضِ اکبر (تحقیق و تنقید )


6) دو دن تین راتیں(اسلامی معلومات )


7) شہرِ دل (شاعری )


8) حدیث پاک سے (مراٹھی /ہندی )


9) تبصرے ہی تبصرے(تنقید و تبصرہ )

 

10) برگِ صحرا (غزلیات )


11) سمندر کی لہریں (ہندی شاعری )


 (12) کہیں دیر نہ ہوجائے (ہندی میں اصلاحی کہانیاں )



13) طوافِ آرزو (قطعات )


  14)سواد اردو شاعری چہ(مراٹھی) 


15)حرف معطر(تحقیق و تنقید) 

16)عصر حاضر اور اردو ادب (تحقیق و ترتیب )


  17)تلنگانہ کے اردو مدارس (مرتبہ )

 

 18)اردو ہے جس کا نام.. (تحقیق و تنقید ) 


19)تنویر حمد (حمدیہ قطعات کا مجموعہ )

 

20) قرطاس و قلم (تحقیق و تنقید ) 21) لفظوں کی مہک (ادب اطفال ) 

22) شکشناچہ مہامیرو (مراٹھی ) 

23) اردو ڈرامہ، کل آج اور کل (تحقیق و تنقید ) 

24) اردو افسانہ، تحقیق و تجزیہ 


   ------ ادارت -----

** ہفت روزہ اوصاف (19 سال سے پابندی سے شائع ہورہا ہے )


** ماہنامہ تعلیمی سفر( 15 سال سے بلا ناغہ اشاعت )


** لاتور ایکسپریس (مراٹھی ) بارہ سال سے پابندی کے ساتھ شائع ہوتا ہے.. 

سہ ماہی قرطاس و قلم، دو سال سے پابندی سے شائع ہوتا ہے 



** انعامات و اعزازات **


اردو اکیڈمی آندھراپردیش و مہاراشٹر کی جانب سے چار کتابوں پر انعامات


حکومت مہاراشٹر کے وزارت اقلیتی فلاح و بہبود کی جانب سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ


مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے مجموعی خدمات پر خصوصی انعام 


ملک کے مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے دو درجن سے زاید انعامات و اعزاز....


:::: عہدے و ذمہ داریاں :::::


رکن نصابی کمیٹی، حکومت مہاراشٹر


صدر اردو اکیڈمی لاتور

جنرل سیکرٹری

مدرسہ مظہرالعلوم پانگاوں ضلع لاتور


مہاراشٹر اردو ساہتیہ پریشد

اوصاف چیاریٹیبل ٹرسٹ

ٹرسٹی


مرکز علم و فن لاتور

الحنا ایجوکیشنل سوسائٹی حیدرآباد


لاتور ضلع اردو پترکار سنگھ

فری پریس ایڈیٹر س فیڈریشن ممبئی



.....نمونہ کلام....



منظر کو دیکھ کے پسِ منظر تلاش کر

دیوار ہی میں ہوگا کہیں در تلاش کر 


اسلوبِ شعر کے نئے تیور تلاش کر 

غالب کی فکر میر کے نشتر تلاش کر 


آئینے بیچنے کا اگر شوق ہے تجھے

اندھوں کے بیچ کوئی نظرور تلاش کر


سایہ نکل کے جسم سے آخر کدھر گیا 

اُس کو حصارِ ذات سے باہر تلاش کر 


پیراہنِ ضمیر کو دھونے کے واسطے 

شہہ رگ میں روشنی کا سمندر تلاش کر


وحشی ہوا سے چاہتا ہے گر مقابلہ 

بازو سے جوڑ نے کوئی شہپر تلاش کر 


جلوہ نُما ہوا تھا جو اک بار طور پر

قاضی تو پھر وہی رُخِ انور تلاش کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہر کلی سوچ کے کانپ اٹھتی ہے گلزاروں میں

پھول کھلتے ہیں تو بک جاتے ہیں بازاروں میں


میں قدم رکّھوں تو کس طرح رکھوں گلزاروں میں

جل رہا ہوں میں ابھی وقت کے انگاروں میں


مسکراتے ہوئے جو زخم دیا کرتے ہیں

اُن کو شامل نہ کرو زیست کے غم خواروں میں


دیکھتا ہوں تو نظر آتشیں ہوجاتی ہے

جانے کیا رنگ ہے آفاق کے رخساروں میں


بھول سکتے نہیں ان کو کبھی دنیا والے

سانس جو لیتے ہیں حالات کی تلواروں میں


زخم کے پھول مہک اٹھتے ہیں شاخِ جاں پر

چاند اتر آتا ہے جب درد کے کہساروں میں


وقتِ مجبوری میں دامن کو بچا لیتے ہیں

ایسے بھی لوگ ہیں قاضی کے پرستاروں میں

----------- ----------- ------------



ہر ایک سانس میں بوئے گلاب رکھتے ہیں

بہت سے زخموں کا ہم بھی حساب رکھتے ہیں


فریب دے کے اُمیدِ ثواب رکھتے ہیں

جو اپنے چہرے پہ دُہری نقاب رکھتے ہیں


غریبِ شہر میں ہم کیا رکھیں گے اپنے پاس

بس ایک دولتِ غم بے حساب رکھتے ہیں


حیات پھر بھی ترستی رہی اُجالوں کو

ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں


ہمارے دیدہ ء نم میں نہ جھانکنا لوگو

سُلگتے زخم بھی ہم زیر ِ آب رکھتے ہیں


دل ایک ذرہ ہے معلوم ہے ہمیں لیکن

اس ایک ذرّے میں سو آفتاب رکھتے ہیں


ہمارا رشتہ نہیں حرفِ نا ملائم سے

ہم اپنی فکر میں ریشم کے خواب رکھتے ہیں


زباں سے کرتے ہیں پر چار نیکیوں کا مگر

برائی دل میں بہ صد آب و تاب رکھتے ہیں


رہِ حیات میں تنہا نہیں ہیں ہم قاضی

تصورات کئی ہمرکاب رکھتے ہیں




---------- قطعات ----------- 


جو سمجھتا رہا فضول ہمیں

کرلیا اس نے بھی قبول ہمیں

باندھ کر اپنے سر کی چادر میں

قاضی بھیجے ہیں اس نے پھول ہمیں


......... 

گھر میں خدا کے جیسے ہی ہونے لگی اذاں

حمد و ثنا میں ہوگئیں مصروف تتلیاں

قاضی خلیل ذکر کی شبنم میں بھیک کر

پڑھنے لگیں درود گلابوں کی پتیاں

.......

شب فراق کچھ آنسو اُچھال دیتا ہوں

ستارے رات کے دامن میں ڈال دیتا ہوں

سکونِ روح کی خاطر کبھی کبھی قاضی

خیال یار کو دل سے نکال دیتا ہوں... 


روح کی چیخ ہوں اور جسم کا آوازہ ہوں

فرشِ احساس پہ بکھرا ہوا شیرازہ ہوں

لوگ پڑھتے ہیں میرے چہرے کو قاضی اکثر

میں بھی اخبار کی خبروں کی طرح تازہ ہوں..... 


روشنائی غم سے لی اور استعارہ لکھ دیا

ہم نے اک اک زخم کو روشن ستارہ لکھ دیا

جب بھنور پڑنے لگے قاضی ہمارے پاوں میں

ہم نے طوفان کو بھی دانسہ کنارہ لکھ دیا

.....


ندی کے جیسی روانی کہاں سے لاؤ گے

کہ ریگزار میں پانی کہاں سے لاؤگے

جو زندگانی کے میلے میں کھو گئیں قاضی

وہ ساری یادیں پُرانی کہاں سے لاؤ گے... 



محترم ڈاکٹر خلیل صدیقی کا موبائل نمبر اور پتہ حاضر خدمت ہے 

9422658736


 اردو گھر، قادری نگر اوسہ ضلع لاتور مہاراشٹر....

--------------------------

تحقیق و ترتیب

محمد سراج الدین

 ریسرچ اسکالر

عثمانیہ یونیورسٹی 

حیدرآباد

 تلنگانہ 

انڈیا

+919059488400 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور