نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جہان اردو شمارہ 85 ایک نظر میں Jahan Urdu Issue 85 at a Glance

جہان اردو شمارہ 85 ایک نظر میں

 Jahan Urdu Issue 85 at a Glance

        جہان اردو کا شمارہ 85، جنوری تا مارچ 2022 میرے پیش نظر ہے۔ پروفیسر مشتاق احمد کی ژرف نگاہی اور مدیراجہ صلاحیتوں کا اعتراف ضروری ہے کہ انھوں نے اپنی تدریسی ، تنظیمی اور دیگر مصڑوفیات کے باوجود روزانہ کالم لکھنا، پھر شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ جہان اردو جیسے موخر ادبی جریدے کو باقاعدگی سے شائع کرنا، غیر معمولی کام ہے۔ جس کے لئے انھیں جس قدر بھی داد دی جائے کم ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد کی نظر جہاں ادب پر ہے وہیں حالات حاضرہ، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ان کے علاوہ اردو زبان کے تئیں ان کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ کہ اردو کی صورتحال، کلیات و جامعیات میں اردو کی جائیدادوں کے ساتھ ساتھ ادب کی ترقی و ترویج کی طرف بھی آپ کی توجہ رہتی ہے۔ صرف نظر ہی گہری نہیں بلکہ آپ کا مطالعہ بھی، معلومات بھی غیر معمولی ہیں۔ خیر۔ شمارہ نمبر 85 کی مشمولات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کس قدر دوراندیشی سے اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے ادبی جریدے کے معیار کو اور اس کے وقار کو برقرار رکھتے ہیں، یہ صرف جریدہ ہی نہیں بلکہ ہر سہ ماہ میں ایک ہم رنگ مضامین سے آراستہ کتاب ہی اپنے قارئین  کے حوالے کرتے ہیں۔ اب تویہ UGC Care List میں بھی شامل ہے۔ اس رسالے یا جریدے میں مضامین کا شائع ہونا، مضمون نگار کے لئے توقیر کا سبب بھی ہے۔ اس شمارے میں جہان تحقیق و تنقید کے زمرے میں 21 مضامین ہیں جب کہ جہان رفتگاں کے تحت دو مضامین اور جہان احتساب میں 4 کتابوں پر گفتگو اور رائے شامل ہے۔ جہاں تحقیق و تنقید کے 21 مضامین اپنی دانست میں ایک ادبی جہان لئے ہوتے ہیں۔ ہر گل را رنگ دیگر بوے است کی کیفیت ان تمام مضامین سے مترشح ہوتی ہے۔

پطرس کی مضمون نگاری: ایک تجزیاتی مطالعہ، ڈاکٹر ہمایوں اشرف کا بہت عمدہ مضمون ہے۔ جس میں انھوں نے پطرس بخاری کی مزاح نگاری ان کے انشائیوں کے حوالے سے بہت خوب کی ہے۔ واقعی پطرس کو سمجھنے اور ان کی انشائیہ نگاری اور مزاحیہ نگاری کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔ اور مضمون کی طوالت قاری کو محسوس بھی ہونے نہیں دیتی کیونکہ خود ہمایوں اشرف کا اسلوب بھی غیر معمولی ہے۔Jahan Urdu Issue 85 at a Glance

دوسرا مضمون ڈاکتر معین الدین شاھین کا بعونان جوہر قابل: لعل محمد جوہر ہے۔ جس میں موصوف نے راجستھاں سے متعلق اس معروف شخصیت کو بیان کیا جو حضرت امیر مینائی کے شاگردوں سے نسبت ہے۔ لعل محمد جوہر کی شاعری پر اچھا مضمون رقم کیاہے۔ جس سے ان کا رنگ سخن عیاں ہوتاہے۔ کوٹہ سے تعلق ہونے کی وجہ سے جوہر کوٹوی ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔ یہ جہان اردو کی وسعت زہنی و قلبی ہے کہ علاقائی شعراء و ادباء پر بھی مضامین کو جگہ فراہم کرتے ہیں اس سے کسی علاقہ میں ادب کی کیا خدمت ہورہی ہے اور وہاں کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس طرح ادب کی آفاقیت واضح ہوتی ہے۔

تیسرا مضمون ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی (پٹنہ) کا "دیکھ لی دنیا ہم نے" اردو کے نامور فکشن نگار، شاعر، ڈرامہ نگار مثنوی نگار ، خود نوشت نگار وغیرہ وغیرہ   اور اردو کے صاحب طرز ادیب و فنکار پروفیسر غضنفر علی کی خود نوشت پر تحریر دہ مضمون ہے۔ دیکھ لی دنیا ہم نے ایک غیر معمولی اور قارئین کے لئے قابل تقلید خود نوشت ہے۔ قابل تقلید اس لئے کہ ہرپڑھنے والے کو یہ تحریر انھیں لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ ہاں جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے وہ غیر معمولی ہے۔ غضنفر نے اپنے ناولوں، ڈراموں، شاعری کے حوالے سے ان میں مستعمل اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے شاعری کو نثر میں اور نثر کوشاعری میں مدغم کردیاہے۔ تس پر ان کا تجزیہ، ان کی ژرف بینی ان کی تنقیدی فکر، اور انسانی اقدار وغیرہ وغیرہ دوآتشہ بنادیتاہے۔ ان کی اس خود نوشت پر ڈاکٹر شہاب نے بہترین اور عمدہ مضمون رقم کیا ہے۔ اس کی انھیں داد دینی ضروری ہے۔

ڈاکٹر قسیم اختر (کٹیہار) نے منفرد لہجے کے غزل گو شاعر شاد عظیم آبادی کے عنوان سے لکھا ہے۔ شاد عظیم آبادی اردو شاعری کے فلک کا ایک روشن ستارہ اور ان کے اشعار زبان زد عام و خاص ہیں۔ ان کے مختصر سے سوانح خاکے کے بعد ان کی شاعری/ غزل کا جائزہ بہت ہی معروضی انداز میں لیاگیاہے۔ نیاز فتح پوری کی رائے شاد کے بارے میں جو کچھ رہی ہے وہ سند سے کم نہیں ہے۔ "شاد بہ لحاظ تغزل بڑے مرتبے کے شاعر تھے۔ ان کے یہاں میردرد کا گداز، مومن کی نکتہ سنجی، غالب کی بلند پروازی اور امیرو داغ کی سلاست، سب ایک ہی وقت میں ایسی ملی جلی نظر آتی ہیں کہ اب زمانہ مشکل سے ہی کوئی دوسری نظیر پیش کرسکے گا"۔

ان کے اشعار جیسا کہ عرض کیا زبان زد عام و خاص اور رواں ہیں ہر کسی کے حافظے کا حصہ بن سکتے ہیں: جیسے

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں آیا نہیں لایا گیا ہوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

         کلام غالب میں تصوف کے رمزو اشارے کے عنوان سے عبدالقیوم (دہلی) کا مضمون ہے جس میں انھوں نے کلام غالب سے تصوف کے رموز و اشارات کو بیان کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ اور یہ سعی بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ غالب کی غزلیات کے مختلف جہات ہیں۔

عرفان عارف (جموں) نے اکیسویں صدی میں غالب شناسی پر جو تجزیہ رقم کیا ہے وہ قاری کو اپنی طرف ملطفت کرنے میں کامیاب ہے۔ کہ غالب نے انیسویں صدی کا شاعر رہا۔ اس کے کلام کی آفاقیت یہی ہے کہ وہ ہر دور میں تازہ اور معنوی اعتبار سے ہر جگہ اور ہر عہد میں جلوہ گر ہوتا رہتاہے۔ اسی لئے آج کی اس پر آشوب دور میں بھی اس کی اپنی اہمیت ہے۔ نارنگ، بجنوری، حالی، اقبال وغیرہ کے حوالوں سے یہ مضمون مزین ہے۔

حکیم اجمل خاں کی ادبی خدمات کے موضوع پر ڈاکٹر شاہد چودھری اور ڈاکٹر محمد توحید خاں کا یہ مضمون اپنی جگہ اہم بھی ہے اور خوب بھی  ویسے حکیم اجمل خاں کو ایک کامل اور ماہر طبیب کے ہی جاناجاتاہے۔ اردو، فارسی، اور اردو میں مہارت رکھتے تھے۔ "دیوان ۔۔۔۔" جو فارسی اوار اردو کلام پر مشتمل ہے۔ اس کی بازیافت کرکے ان کے کلام کے ساتھ ساتھ ان کی دیگر تصانیف پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یقیناً علم میں اضافہ کا باعث ہے۔

v   ڈاکٹر جہانگیر احمد خاں (رامپور) کا مضمون اردو میں کالم نگاری کی روایت بھی اپنے جلو میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

v   ڈاکٹر شاذیہ کمال (مظفر پور) کا مضمون صادقہ نواب سحر کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ بھرپور احاطہ کرتا ہے اور صادقہ تراب جو نہ صرف اردو بلکہ ہندی کی بھی ادیبہ ہیں انھوں نے بہت سے ناول اور افسانے رقم کئے ہیں۔ ان کا تنقیدی جائزہ بہت خوب ہے۔

v   ڈاکٹر عقیل احمد (برونی) کا گلشن ہند حیدری، مرتبہ پروفیسر مختار الدین احمد پہ تذکرہ ہے، اس پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے۔

v   ڈاکٹر حسینہ خانم (علیگڑھ) کا مضمون شہرہ آفاق فکشن نگار اور زوال کا آئنہ دار، بہت عمدہ تجزیہ ہے۔ معروضی رنگ میں ڈاکٹر حسینہ خانم نے اس ناول کا جائزہ لینے کی کامیاب سعی کی ہے۔ قارئین کی معلومات میں اضافہ کا باعث یہ مضمون ہے۔

v   اس مجلہ کے تمام مضامین میں ایک ایسا بھی مضمون ہے جو فنی نقطہ نظر سے تحریر کیاگیاہے۔ اور وہ مضمون ہے ارمغان حجاز میں صنائع و معنوی کا استعمال ۔ محمد کاشف رضا نے غیر معمولی عرق ریزی سے لکھاہے۔ ارمغان حجاز کا مشمولہ منظومات اور اشعار میں جتنے اور جیسے صنائع معنوی مستعمل ہوئے ہیں۔ ان کی تعریف اور پھر جہاں بھی وہ صنعت در آئی ہے اسے بطور حوالے کے بیان کردیاہے۔ یہ عمدہ تحقیقی و تنقیدی مضمون کہلاسکتاہے۔ دیگر ریسرچ کرنے والوں کے لئے یہ چراغ راہ ثابت ہوگا۔ اس کے لئے موصوف نے علم بلاغت کی مختلف کتب سے استفادہ کرتے ہوئے اس مضمون کو رقم کیاہے۔

v   شاہینہ یوسف (کشمیر) نے بانو قدسیہ کا افسانوی مجموعہ "آتش زیرپا" اور سماجی مسائل پر بہترین مضمون رقم کیاہے۔ بانو قدسیہ اردو فکشن کا ایک اہم نام ہے اور ان کے اس مجموعہ میں ١٦ افسانے ہیں۔ ان کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے عمدہ کاوش پیش کردی ہے۔

v   ڈاکٹر محمد ارشد حسین (دربھنگہ) نے اردو کے فروغ میں متھلانچل کے غیر مسلم ادباو شعراء کا حصہ (نمائندہ شعراء کے حوالے سے) اپنا مضمون شائع کروایا ہے۔ جس میں بہار اور اس کا ضلع متھلا رہاہے۔ بلکہ یہ سرزمین ہی متھلا کے نام سے معروف ہے۔ یہاں کے باسیوں میں کیا مسلم و کیا غیر مسلم سبھی نے اس ہندوستانی عوامی زبان یعنی اردو کا اپنے وسیلہ کا اظہار بنایا تو کئی ایک شعراء و ادباء نے اپنی تخلیقات اسی زبان میں بیان کیں۔ انہی پر موصوف نے قلم اٹھاتے ہوئے ایک معلوماتی مضمون قارئین کے بصارتوں اور سماعتوں کے حوالے کیاہے۔

v   مسرت آرا (کشمیر) نے اکیسویں صدی کی خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں سیاسی شعور کے عنوان سے مضمون قلم بند کیاہے۔ چونکہ اسکالر ہیں جتنا مواد انھیں دستیاب ہوا اسی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تحریر کو بیان کردیاہے۔

v   شاہد حسین ڈار (کشمیر) نے محمد حمید شاہد بحیثیت فکشن نقاد اچھا مضمون قلمبند کیا ہے۔ مضمون طوالت لئے ہوئے ہے مگر اچھے سے احاطہ کیاہے۔ ان سے مستقبل میں بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔

v   محمد ثاقب عالم (علیگڑھ) نے وہاب اشرفی کی افسانہ نگاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی اردو فکشن کا اہم نام ہے۔ ان کے ہاں افسانوں کے مختلف رنگ ملتے ہیں اور انھی رنگوں کے پیش نظر محمد ثاقب نے اپنا مضمون رقم کیااور اس کا حق ادا کردیا ہے۔

v   تحریک آزادی اور اردو افسانہ کے عنوان سے نئیر وسید (جموں) نے قبل از تقسیم و بعد از تقسیم ہند کے افسانوی ادب پر کھل کر اظہار خیال کیا اور اپنے مضمون کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔

v   سرسید اور ان کے افکار کے موضوع پر ظفر اقبال نخوی (جموں) نے سرسید کی مذہبی فکر، تعلیمی فکر، سیاسی فکر، پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

v   اردو اور گوجری زبان کا لسانی اشتراک: ایک جائزہ کے عنوان سے گلام مصطفیٰ اشرفی (دہلی) نے غیر معمولی مضمون رقم کیا ہے۔ یہ مضمون دیگر لکھنے والوں کیلئے مہمیز کرتاہے۔ اور اس طرح اردو زبان کے دیگر زبانوں سے جو رشتے ہیں ان پر کام ہونا چاہئے یہ ہمیں بتاتا ہے۔ بہر حال اچھی بحث کی ہے۔ قابل مبارکباد ہے۔

v   افسانہ "احمق" کا تجزیاتی مطالعہ کے زیر عنوان ارم نعیم (پریاگراج) نے شموئیل احمد کے افسانہ کا تجزیہ کیا اور بہت معروضی انداز سے اس کا جائزہ لیا ہے۔ شموئیل احمد کی تحریر کو سمجھنے اور سمجھانے کی سعی عمدہ طریقے سے کی ہے۔

v   حسین الحق سے فکشن پر مکالمہ" کے موضوع پر نثار احمد صدیقی نے جوانٹرویو پیش کیا ہے اور جو سوالات اٹھائے ہیں اس پر حسین الحق نے جو مدلل اور سکت جوابات دیئے ہیں۔ داد دینی پڑتی ہے۔ ایک اچھا مکالمہ ہے جو ادب اور دور جدید کے فکشن سے کماحقہ معلومات فراہم کرتاہے۔ قابل مبارکباد ہے۔

v   سلیمان عبدالصمد (دہلی) نے اماوس میں خواب کا موضوع اور اسلوب کے تحت جو مضمون تحریر کیا ہے یہ دراصل حسین الحق کے ناول اماوس میں خواب 2017" کا تجزیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوع اور اسلوب سے بحث کی ہے۔ جو اس ناول کو سمجھنے میں مدد دیتاہے۔

v   اس طرح اس مجلہ میں شامل 23 مضامین اپنی اپنی جگہ بہت معیار ی ہیں اس معیار کو مدنظر رکھ کر کہاجاسکتا ہے۔  کے جہان اردو اور اس کے مدیر ڈاکٹر مشتاق احمد کی دور رس نگاہیں، ادب پر ان کی گرفت، ادب میں ہونے والی تبدیلیوں وغیرہ کو درشاتی ہیں۔ اتنے اہم اور اچھے مجلہ کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

 

پروفیسر عبدالرب استاد 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو