نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ستر ماؤں کی محبت اور ماں

ستر ماؤں کی محبت اور ماں


                     مارچ کی تاریک رات کو کالے بادلوں نے مزید تاریک کر دیا تھا. 6 سال کی عالیہ اپنی بڑی بہن رقیہ کے ساتھ سہمی ہوئی سو رہی تھی.رقیہ کی عمر 8برس تھی ۔ بارش کی آواز اور بادلوں کی گرج نے عالیہ کے خوف میں مزید اضافہ کر دیاتھا. مکان کی چھت سے پانی ٹپک رہا تھا جس سے عالیہ کی ماں رشیدہ کا بستر گیلا ہو چکا تھا. بجلی چمکتی ہے اور بادل زور سے گرجتے ہیں عالیہ اپنا گرم بستر چھوڑ کر ماں کے ساتھ لپٹ جاتی ہے. رشیدہ کہتی ہے" عالیہ! ڈرو نہیں کچھ بھی نہیں ہوگا ابھی بارش رک جائے گی". کچھ ہی دیر میں بارش کی شدت میں اور اضافہ ہوگیا جس کے ساتھ ہوا کی رفتار بھی بڑھ گئی بادل زور سے گرجتا ہے. عالیہ کہتی ہے!" اماں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے" رشیدہ کہتی ہے! اللہ میاں سے دعا کرو بارش روک دے. باہر سے کسی پیڑ کے گرنے کی آواز آئی جس کی وجہ سے رشیدہ کو اپنے مکان کی فکر ہوئی اور دعا کie اور کہا!! کہ"اے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والے مولا !میری بیٹی ڈر رہی ہے بارش روک دے" عالیہ نے ماں سے کہا" اماں یہ بارش اللہ میاں برساتا ہے؟" ماں نے کہا ہاں" تم تو کہتی تھی اللہ میاں اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے پھر اللہ میاں ڈرا کیوں رہا ہے؟" ماں نے کہا! "جب ہم اس کی نافرمانی کرتے ہیں تو پھر وہ غضب ناک ہو جاتا ہے" کچھ دیر ماں بیٹی خاموش رہے عالیہ نے کہا!"میں اپنے اللہ میاں کو راضی کر سکتی ہوں؟ " ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر عالیہ کے گالوں پر پڑا عالیہ نے کہا اماں تو رو رہی ہے؟ رشیدہ نے کہا !بارش کا قطرہ ہوگا باہر سے گھر کی ایک دیوار گرنے کی آواز آئی رقیہ بھی ماں کے بستر میں آگئی مکان کے روشن دان میں چڑیا کا گھونسلہ تھا.جس میں چڑیا کے بچے تھے ہوا کے تیز جھونکے نے گھونسلہ گرا دیا اور بچے مر گئے .نہ جانے چڑیا کہاں تھی! باہر سے بجلی چمکی ٫عالیہ نے چڑ یا کے مرے ہوئے بچوں کو دیکھا اور ماں سے کہا! اماں ان بچوں نے بھی خدا کی نافرمانی کی ہوگی! ماں خا موش رہی. باہر ایک بار پھر زور سے بادل گرجتا ہے ماں نے دونوں بیٹیوں کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور کہا تم اللہ کو مناؤ وہ بچوں کی جلد مان لیتا ہے وہ ہم سے ناراض ہے .عالیہ کہتی ہے اماں اللّه میاں تو سب سے پیار کرتا ہے نا پھر وہ بڑوں کی دعا کیوں نھیں سنتا ؟

ماں کہتی ہے ہم بڑے گناہ کرتے ہیں وہ ہم سے ناراض ہوتا ہے لرزتی ہوئی آواز میں کہا تم اللّه کو مناؤ ۔۔عالیہ اور رقیہ دعا کرنے لگیں."اے اللّه بارش روک دے ۔۔۔۔۔۔"

 کچھ دیر بعد بارش کی شدت میں کمی آنے لگی اور ان کو نیند آگئی. صبح عالیہ کی آنکھ کھلی بارش رک چکی تھی. عالیہ نے ماں کو جگاتےہوئے کہا!" اماں رات میں نے اللہ میاں کو منا لیا تھا دیکھو بارش رک چکی ہے لیکن ماں نہیں اٹھی٫ عالیہ نے رقیہ کو جگایا اور کہا !اماں نہیں اٹھ رہی ہیں. دونوں ماں کو جگانے لگیں لیکن ماں مر چکی تھی .عالیہ نے روتے ہوئے کہا!! "اماں اللہ ہم سے پھر سے ناراض ہوگئے ہیں!" عالیہ روتے روتے بے ہوش ہوگئی. عالم غش میں دیکھا کہ ماں دعا کر رہی ہے!" اے میرے رب یہ مکان نہ گرنے دینا بدلے میں میری جان لے لے میری بیٹیوں کی حفاظت فرمانا "عالیہ نے عالم غش میں رقیہ سے کہا !"رقیہ ہم سے بہت پیار کرنے والی ماں نے ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والی ذات سے سودا کیا ؛ماں اچھا نہیں کیا؛خدا اچھا نہیں کیا۔" . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . Written By Ali Raza Gohar💓 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور