نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

BISWAS URDU EDITORIAL 15.12.22 Nature is a Manual for Human to be Healthy

آداب دوستو!

            انسان جب کوئی چیز بناتا ہے تو اس کے ساتھ ایک manual یعنی ایک کتاب جو اس چیز کے متعلق ساری جانکاری دے سکتی ہے کہ اس کو کیسے استعمال کریں اور اس کے اندر کون کونسی چیزیں ہیں۔ یہ ساری جانکاری اس کتاب میں موجود ہوتی ہے۔  ٹھیک اسی طرح اللہ نے بھی انسان کو بنایا تو اس کے لئے بھی ایک manual یعنی ایک کتاب تیار کی  اس میں تمام چیزیں رکھ دی کہ انسان کو زندہ رہنے کیلئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کتاب کونسی ہے کہاں ہے وہ کتاب وہ کتاب ہے۔ وہ کتاب ایسی نہیں ہے جیسے ہم دوسری کتابیں دیکھتے ہیں۔ اس کو اللہ نے زمین اور آسمان کے درمیان رہنے بسنے والے تمام مخلوقات کے طور طریقے پر پھیلا دیا ہے۔ زمین پر رہنے بسنے والے دیگر مخلوق کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کیسے صحت مند اور بے فکر زندگی گزار تے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا راز ہیں۔ ان چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔

            زمین پر زندہ رہنے کیلئے زندگی کیلئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے پانی، ہوا، دھوپ، غذا وغیرہ۔  یہ تمام چیزیں انسان کیلئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنی ہر جاندارکیلئے ضروری ہیں جو اس زمین پر بستا ہے۔ اب پانی  پانی کے بغیر کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی چاہے وہ انسان ہو، پیڑ ھ پودے ہوں، جانور یا کوئی اور مخلوق جسے ہم جاندار کہہ سکتے ہیں۔

BISWAS URDU EDITORIAL 15.12.22  Nature is a Manual for Human to be Healthy 

            پانی کونسا پینا چاہئے؟ یہ انسان نے اپنے طورپر طئے کرلیا کہ ہمیں پانی اچھے سے اچھے صاف ستھرا اور ایک چیز کہ اس میں مزہ بھی ہو۔ یعنی پانی کے اندر ٹیسٹ بھی آئے۔ اس مزے کے پیچھے چلتے انسان نے اپنے پانی کو بگاڑ دیا ہے۔ پانی کے اچھا کرنے کی کوشش میں پانی کو خراب کردیا ہے۔ جو پانی کی جسم کو ضرورت ہے وہ پانی ہمیں اب میسر ہیں ہے۔ ہم جو پانی پی رہے ہیں وہ پانی تمام معدنیات کو نکالا گیا ہے جس کے چلتے ہمارا جسم جو تقریباً 75فیصد پانی رکھتا ہے وہ بگڑ گیا ہے۔ ہمیں ہو پانی نہیں مل رہا ہے جس کی ہمیں حقیقت میں ضرورت ہے۔

            ٹھیک اسی طرح دھوپ۔ ہمارےجسم کو دھوپ کی بھی بہت ضرورت ہے اگر ہم دن میں ایک گھنٹہ دھوپ نہیں لیتے ہیں تو ہم بیمار پڑھنے لگ جائیں گے۔ ہمیں دھوپ بھی لینا چاہئے۔

            ٹھیک اسی طرح ہماری زندگی کو زمین سے نکلنے والے ریڈیشن کی بھی ضرورت ہے۔ تو ہمیں زمین پر ننگے پیر چلنے کی ضرورت ہے۔ دن میں دو چار گھنٹے زمین پر یا گیلی گھانس پر ننگے پاوں چلنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ہم نہیں چل پاتے ہیں تو ہمارے جسم میں بہت ساری بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ خصوصاً اج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہم اطراف سے برقی آلات سے گھرے ہوئے ہیں ایسے میں ہمیں زمین سے جڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ ان برقی آلات سےنکلنے والی برقی رو ہمارے جسم کو نقصان پہنچا تی ہے۔ اور یہ زمین ہمارے جسم کے ان برقی آلاتے سے نکلنے والے نقصانات کی دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

            اس شمارے میں ایسے بہت سارے ویڈیواور مضامین شامل ہیں کہ جس میں ان تمام چیزوں پر سیر حاصل بحثیں کی گئی ہیں۔ یہ بہت ہی مخصوص شمارہ ہے۔ جیسے کہ ڈاکٹر بسواروپ کی ہمیشہ ہی کوشش رہی ہے کہ انسان کو دیگر مخلوقات کی طرح بغیر ڈاکٹر کے صحت مندرہنے کے اصول سکھائیں اور ان پر عمل کر کے بغیر کسی روپئے پیسے کہ انسان اپنے آپ کو ہر بیماری سے بچا سکتا ہے اور بدقسمتی سے کوئی بیماری آبھی گئی ہے تو اس سے ٹھیک ہونے کے طریقے بھی اس میں بتائے گئے ہیں۔ اس شمارے کے تمام مشمولات کو بغور پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں۔

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور