نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پتلا منی افسانہ putla short story

 پتلا 


(منی افسانہ 

Putla short story 

شیلا بیوگی کے دن جھگی جھونپڑی میں گزار رہی تھی ۔۔اپنے پانچ سالہ بیٹے رمیش کے ساتھ ۔شوہر راجیش شراب پیتا رہا پھر یوں ہوا کہ شراب اسے دھیرے دھیرے پیتی گئی پھر اسے کھا گئی ۔شیلا چند گھروں میں کام کرتی ۔۔۔اپنی عزت بھی بچائے رکھتی اور بچا کچا کھانا لاکراپنی اور بچے کی بھوک مٹاتی۔۔پیسے گانٹھ میں باندھے رکھتی ،رمیش کے مستقبل کے لیے ۔۔۔پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے اسے فخر ہے اپنے بیٹے پر ۔۔۔اس کی ذہانت پر ۔جو آئے دن سوالات پوچھ پوچھ کر اس کی ناک میں دم کیے رہتا ہے ۔ان پڑھ ،گنوار شیلا کچھ جوابات دیتی جو اس نے زندگی سے سیکھے ہیں اور کچھ مستقبل پر چھوڑ دیتی کہ خود جان جاؤگے ۔۔۔۔

،،اسکول جانے لگوگے تو سمجھ جاؤ گے ۔۔۔بڑے ہوکر سمجھ جاؤگے ،،

ایک رات ٹمٹماتے چراغ کی روشنی میں پوچھ بیٹھا ،،ہمارے گھر میں لائٹ نہیں ۔۔گلی کے نکڑ پر دن میں بھی لائٹ جلی رہتی ہے ؟،،

،،میونسپلٹی کا قصور ہے ،،

،،تم اب اوپر والے کو دوش کیوں نہیں دے رہی ہو ؟،،

شیلا چپ ہوگئی ۔۔وہ ہر اونچ نیچ پر انگلی سے اوپر اشارہ کیا کرتی تھی ۔

رمیش دن بھر گلیوں میں کھلی سڑک پر مٹر گشتی کیا کرتا ۔بعض مشاہدات کی ماں سے وضاحت چاہتا ۔

،،ماں کوڑے کے ڈھیر میں کتے اور آدمی کیا تلاش کرتے ہیں ؟،،

Putla short story 

،،اپنا اپنا حصہ ،، مختصر جواب شیلا نے دیا ۔

کتے وہاں بھی لڑتے ہیں ۔۔کیوں ؟،،

،،ان کی عادت ہے ،،

آدمی بھی تو لڑتے ہیں !!،،۔۔۔چپ ہوجاؤ۔۔رات بہت ہوچکی ،،

،،نیند نہیں آرہی ۔۔۔بس ایک سوال کا جواب دو ،،

،،بس!۔۔زیادہ سوال نہیں کرتے ،،

،،تم نے ہی تو کہا تھا کہ ۔۔۔جو جتنے زیادہ سوال کرتا ہے اتنا ہی زیادہ سیکھتا ہے ۔۔۔۔اور زیادہ سوالات ذہین لوگ ہی کرتے ہیں ،،

شیلا ہولے سے مسکرادی۔۔شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔،،پوچھو،،

کل سڑک کے کنارے شادی میں لوگ اتنا کھانا کیوں پھینک رہے تھے ،،،

،،یہ بھرے پیٹ ہوتے ہیں ۔۔خالی پیٹ یہ نہیں کرتے ،،

،،اچھا ،،۔۔رمیش نے سر ہلا کر کہا ۔۔گویا سب کچھ سمجھ گیا ہو ۔۔۔پھر توقف سے بولا ،،ماں آخری سوال ۔۔تم مجھے اکثر ذہانت کا پتلا کہتی ہو ،،

،،یہ پتلا کیا ہوتا ہے ؟،،

،،پتلا ۔۔پتلا ۔۔یعنی مجسمہ ۔۔بے جان۔۔پتھر ،دھات یا کسی چیز سے بنا ہوا ۔۔چوراہے پر لگے پتلے ۔۔کپڑے کی دکانوں میں نئے نئے کپڑے پہنے پتلے ۔۔۔

رمیش ،شیلا کا جملہ مکمّل ہونے سے پہلے بول پڑا ۔

،،ماں ۔۔یہ ہلتے ڈلتے نہیں ۔۔چل پھر نہیں سکتے تو ۔۔یہ نئے نئے کپڑے کیوں پہنتے ہیں ؟؟؟،

ماں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ۔


ڈاکٹر ارشاد خان

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور