نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اقوال سر سید،اقبال اور مولانا آزاد

 

اقوال سر سید،اقبال اور مولانا آزاد

                                                         Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad                                      

            ۱۱ / اکتوبریوم سرسید،۹ نومبر یوم اقبال اور ۱۱ نومبر یوم تعلیم کے لئے مخصوص ہیں جو کہ سر سید اقبال اور آزا د کی یوم پیدائش ہے۔اور ان تینوں شخصیات نے اپنے اپنے اعتبار سے پوری قوم اور خاص کر مسلمانوں کو بیدار کرنے اور انکی اصلاح و فلاح کے لئے تا حیات کوششیں کیں۔انہوں نے اپنی علمی ،ادبی اور عملی کاوشوں سے ہمارے ادب کا وقار،ہماری زبان کی اہمیت و عظمت اور ہماری قوم کی زندگی بدل کر رکھ دی۔انکی ادبی اہمیت،شاعرانہ عظمت اور نثری خدمات کا اعتراف پوری دنیا کو ہے انہوں نے نہ صرف اپنی تحریروں سے کام لیا بلکہ اپنی تقریروں،خطبوں سے بھی اصلاح و فلاح کا کام لیا۔ان ہی خطبوں،تقریروں،خطوں اور مختلف بکھرے ہوئے خیالات کو اقوال کی صورت میں پیش کرنے جا ر ہی ہوں۔جس سے انہوں نے اپنے تئیں تمام لوگوں کے مسائل پر غور وفکر کرکے انکی جمودی حالت کو متحرک کیا۔ان تینوں شخصیات کو میں ان اشعار کے ذریعے خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔

اسی نے ہم کو بخشا ہے گل خوش رنگ تجھ ایسا

چمک اٹھا ہے جسکے دم سے سارا بوستاں اپنا

اس نے ہی دیا ہے پیکر علم وعمل تجھ سا

کہ جسکی ذات پر نازاں ہے کل ہندوستاں اپنا

                                                                                    (جگن ناتھ آزاد)

Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

            سرسیدنے اپنی پوری زندگی قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے وقف کردی وہ ایک فرد نہیں تحریک تھے انہوں نے اپنی قوم کو باشعور، متحرک اور با عزت بنانے کے لئے جدوجہد کی۔

صباء اکبر آبادی کے الفاظ میں

تہذیب اور اخلاق سکھانے والا

سورج کی طرح جگمگانے والا

خیرہ ہوئی ارباب وطن کی آنکھیں

اسطرح سے آیا تھا وہ آنے والا

انکے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا صرف انکی تصنیفات اور انکی علمی کاوشوں میں ہی نہیں انکی شخصیت کا عکس انکے اقوال کے آئینے میں بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔اقوال ملاحظہ فرمائیں۔

۱)سر پرستوں سے گذارش:

اے میری قوم کے لوگو!

علم کے خزانوں کو اپنے بس میں کرلو۔۔۔سب ترقی کی جڑ یہی ہے۔

                                                            (لیکچر بنارس ۰۲ دسمبر ۷۶۸۱)

Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

۲)کاہلی چھوڑ دو:

            یہ ایک ایسا لفظ ہے جسکے معنی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا،کام کاج محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا،اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے میں سستی کرنا کاہلی ہے مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قوی ٰ کو بیکار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاہلی ہے۔

۳)خلاقی تعلیم:

            اخلاقی تعلیم صرف کتابوں کی تعلیم سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ عمدہ سوسائٹی اسکی تعلیم دیتی ہے۔

 

۴)تعلیم اطفال:

            مذہب کے بعد جو چیز سب سے ضروری ہے وہ تعلیم ہے ہم کو زمانہ گزشتہ اور حال پر نظرکر کے ایک ایسا طریقہ تعلیم متعین کرنا چاہئے جس سے علوم دین اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم کے اعلیٰ درجے تک ہم کو قابو ملے۔

۵)اپنی خامیوں کا احساس پیدا کرو:

            دنیا میں کسی قوم کے یہی دو نشان ہیں ایک یہ کہ وہ سمجھنے لگیں کہ وہ ذلت اور خرابی میں مبتلا ہیں اور دوسرا نشان یہ ھیکہ اس ذلت سے نکلنے کی کچھ کوشش کریں۔

۶)سچائی اختیار کرو:

            انسان کو چاہئے کہ اپنے مخالف سے بھی مخالفت کرنے میں سچائی اور نیک دلی کو کام میں لاوے کہ یہی طریقہ اپنے مخالف پر فتح پانے کا نام ہے۔

۷)تاریخی ورثہ کی حفاظت کرو:

            کسی قوم کے لئے اس سے ذیادہ بے غیرتی نہیں کہ وہ اپنی قوم کی تاریخ بھول جائیں اور اپنے بزرگوں کی کمائی کھو دیں۔

۸)اپنی مدد آپ:

            یہ ایک نہایت عمدہ اور آزمودہ مقولہ ہے اس چھوٹے سے فقرہ میں انسانوں کا قوموں اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے ایک شخص میں اپنی مدد آپ کرنے کا جوش اسکی ترقی کی سچی بنیاد ہے اور جبکہ یہ جوش بہت سارے لوگوں میں پایا جائے تو وہ قومی ترقی،قومی طاقت اور مضبوطی کی جڑ ہے۔

۹)خوشامد ایک بیماری ہے:

            دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔

 

10)تعصب:

            تعصب انسان کو ہر طرح کی نیکیوں کو حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔اکثر دفعہ ایسا ہوتا ھیکہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے مگر صرف تعصب اسکو اختیار نہیں کرنے دیتا اور وہ دیدہ و دانستہ برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔

 

۱۱)مخا لفت:

            دشمنی اور عداوت،حسد و رنجش اور ناراضگی کے سوا ایک اور جذبہ انسان میں ہے جو خود اسی شخص میں کمینی عادتیں اور رذیل اخلاق پیدا کرتا ہے اور بہ عوض اسکے کہ وہ اپنے مخالف کو کچھ نقصان پہنچادے خود اپنا آپ نقصان کرتا ہے اسی انسانی جذبے کو ہم مخالفت کہتے ہیں  ۔

 Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

 

۲۱)عمل:

            جسقدر دلسوزی اور قومی ہمدردی ہم لفظوں میں ظاہر کرتے ہیں  اگر اسکا پچاسواں حصہ بھی عمل میں آوے تو قوم کو لازوال فائدے حاصل ہوں گے۔

 

۳۱) سب مذاہب کا احترام کرو:

            ہمارا عقیدہ ہیکہ وہ لوگ جو سچے پاکباز اور تقویٰ شعار ہیں گو وہ کسی مذہب اور ملت کے کیوں نہ ہو ویسے ہی تعظیم و تکریم کے مستحق ہیں جیسے کہ خود اپنے یہاں کے بزرگ اور مقدس لوگ۔

 

۴۱)فکر و عمل میں یکسانیت پیدا کرو:

            میری نصیحت تم سب کو یہ ھیکہ کرو اسکو جس پر تم کو دلی یقین ہے اور مت کرو اسکو جس پر تم کو دلی یقین نہیں یہی اصل سچائی ہے اور یہی ایک بات ہے جس پر دونوں جہاں کی نیکی منحصر ہے۔

 Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

۵۱)کسی موقع پر کہا تھا:

            ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جسکی دو خوبصورت آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں اگر وہ دونوں آپسمیں نفاق رکھیں گے تو پیاری دلہن بھینگی ہو جائے گی۔

 

۶۱) تعلیم کی اہمیت:

            میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی روح بغیر تعلیم چتکبرا سنگ مر مر کے پہاڑ کی مانند ہے کہ جب تک سنگتراش اسمیں ہاتھ نہیں لگاتا اسکا دھندلا پن دور نہیں کرسکتا۔اسکو تراش خراش کر سڈول نہیں بناتا،اسکو پالیش نہیں کرتا،اسوقت تک اسکے جوہر اسی میں چھپے رہتے ہیں اور اسکی خوشنما دلربا رنگتیں اور خوبصورت بیل بوٹے ظاہر نہیں ہوتے یہی حال انسان کی روح کا ہے انسان کادل کیسا ہی نیک ہو مگر جب تک اس پر عمدہ تعلیم کا اثر نہیں ہوتا اسوقت تک ہر ایک نیکی اور ہر قسم کے کمال کی خوبیاں اسی میں چھپی ہوتی ہیں اور بغیر اس قسم کے نمود نہیں ہو سکتیں ظاہر نہیں ہوتیں۔

 

            آخر میں سر سید کے اقوال اور انکی فکر کو مولوی نظیر احمد کے الفاظ میں یوں کہنا چاہوں گی۔

 

خرد مندوں کی صف میں سب موخر تھے وہ اول تھا

غرض اسلامیوں کی فوج کا لیڈر تھا جنرل تھا

اب اسکے بعد لشکر ہے مگر افسر نہیں کوئی

بھٹکتا پھر رہا ہے قافلہ رہبر نہیں کوئی

 

            سر سید کی طرح اقبال بھی ایک بڑے دانشور اور مفکر قوم ہیں اسکے ساتھ ساتھ وآفاقی شاعر بھی ہیں اقبال نے ہماری سوئی ہوئی قوم کو اپنے کلام اور آفاقی شاعری سے جھنجھوڑا۔اور ان سوئے ہوئے ذہنوں میں قومیت کا جذبہ و جوش پیدا کیا۔اقبال نے خاص کر اپنی شاعری اور بعض اوقات اپنے خطبات اور مقالات سے بھی بیداری کا کام لیا۔انکے اشعار اور اقوال دونوں نے ہی دماغوں کو روشن کیا ہے اقوال ملاحظہ کیجئے۔

 

۱)عمل اور یقین:

            عمل اور یقین قوموں کے باوقار زندہ رہنے کے اہم ستون ہیں۔

یقیں محکم عمل پیہم،محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں یہ ہے مردوں کی شمشیریں

۲)مایوسی اور نا امیدی:

            مایوسی اور ناامیدی میرے تصور کے خلاف ہے اور قوم کا تصور فکر وعمل سے جڑا ہوا ہے اگر یہ دونوں ہی اجزاء کمزور ہو جائیں تو قوم زوال کی طرف بڑھتی ہے۔

 

قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے

پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

۳)قوت یقین:

            یقین ایک بڑی طاقت ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ دوسرا بھی میرے افکار کا موید ہے تو اسکی صداقت کے بارے میں میرا اعتماد بڑھ جاتا ہے

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

۴)طاقتور انسان:

            طاقتور انسان ماحول کی تخلیق کرتا ہے اور ناتواں خود کواس ماحول میں ڈھالتا ہے۔

۵)تہذیب:

            تہذیب طاقتور انسان کی فکر ہے۔

 

۶)تصور قومیت:

            ملتوں کی نشوونما میں تصور قومیت یقیناَ ایک صحت مند عنصر ہے لیکن اسمیں غلو کا بھی امکان ہے اور جب اسمیں غلو ہوتا ہے تو ادب و فن میں انسانی عناصر کے خاتمے کا میلان پیدا ہوتا ہے۔

 

۷)ضبط نفس:

            افراد کا ضبط نفس خاندانوں کی تشکیل کرتا ہے قوموں کا ضبط نفس مملکتوں کا خالق ہوتا ہے۔

۸)مقصد تعلیم:

            قانون اشیاء کیا ہے؟۔۔۔پیہم جدوجہد۔۔۔۔تو پھر تعلیم کا مقصد کیا ہوگا۔۔؟یہ ظاہر ہے جدوجہد کے لئے تیاری۔جو قوم  فکری برتری کے لئے کوشاں رہتی ہے وہ اپنے ضعف کا اظہار کرتی ہے۔

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اسکی خودی کو

 ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

۹)غم:

            غم ایک خدائی عطیہ ہے تاکہ انسانوں کو پوری زندگی کا ادراک ہو سکے۔

 

١۰)لامتناہیت:

            ایک ریاضی داں مجبور ہے مگر ایک شاعر لامتناہیت کو ایک مصرعے میں قلمبند کرسکتا ہے۔

 

۱۱)تاریخ:

            تاریخ ایک طرح کا ضخیم گراموفون ہے جسمیں قوموں کی آواز محفوظ ہوتی ہے۔

 

۲۱)فلسفہ و شاعری:

            فلسفہ انسانی تعقل کی برفیلی رات میں کانپتا ہوا جوہر ہے شاعر نمودار ہوتا ہے اور انکی معروضیت کو حرارت بخشتا ہے۔

 Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

۳۱)خوشامد:

            خوشامد صرف مبالغہ آمیز خوش سلیقگی و خوش گفتاری ہے۔

معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کی حقیقت

کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر، رات کا شہباز

انکی شاعری ہو کی نثر دونوں قابل افتخار ہے۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے الفاظ میں۔

"اقبال کی شاعری کی خاص غایت تھی۔۔۔۔۔۔اس نے ہمیں آزادی فکر اور خود اعتماد ی سکھائی۔اور ایسے اعتماد کو توڑا جو گھن کی طرح ہماری قوم کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔اسکا کلام اردو زبان میں ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ اس نے مردہ دلوں کو زندہ کیا ہے"۔۔۔۔

                                    (عبدالحق۔۔۔جوہر اقبال نمبرمکتبہ جامعہ ص۵۱)

            ان اقوال ا،شعاراور اقتباس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہیکہ اقبال کی شاعری ہو یا نثر ذوق یقین اور آہ سحر گاہی سے مرکب تھی ا سمیں فکر ہے جذبہ ہے جوش ہے احساس ہے شعور ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو حسن وجمال سے آراستہ وپیراستہ کرکے پیش کرنے کا شعوری اور غیر شعوری احساس ہے۔اقبال نے اپنے کلام نثر و نظم دونوں سے قوم کی رگوں ایسے جوشیلے جذبات رواں کئے جسکے احساس سے قومیں وقار کے ساتھ ہمیشہ زندہ و پائندہ رہتی ہیں۔

            مولانا آزاد کی فکر بھی سر سید اور اقبال کی طرح تھی خاص طور پر انکی عالمانہ اور فاضلانہ تقریریں اور تحریریں۔اور وہ چاہتے تھے کہ ان تقریروں،تحریروں،خطبات اور خطوں سے مسلمان اپنے اعتقادات کے ساتھ فرسودات اور متعصبانہ طرز زندگی سے باہر آکر جدید تعلیم کے ذریعے ترقی کی راہیں طئے کریں تاکہ سماجی زندگی میں قوموں سے پیچھے نہ رہیں۔

 

            انکی تقریر اور تحریر ایک جیسی تھی وہ گفتگو کرتے تو معلوم ہوتا کہ وہ کتاب کے ورق الٹ رہے ہیں انکی تقریر مربوط و مرتب ہوتی ایک ایک لفظ ناپ تول کر استعمال کرتے تھے جسطرح لکھتے تھے اسی طرح بولتے تھے پر شکوہ الفاظ،پر ہئیت فقرے،قرآن کی آیات اور برجستہ اشعار انکی تحریر میں چار چاند لگاتے۔اصل سحر انکے لب ولہجے اور زبان و بیان میں تھا۔

جو تھے غفلت میں غرق انکو صدا دیتا ہوا اٹھا

کہ وہ غیرت کے شعلوں کو ہوا دیتا ہوا اٹھا

خطیب ایسا کہ انداز خطابت رشک کرتا تھا

جو سن لیتا تھا اسکو،دم ہمیشہ اسکا بھرتا تھا

اقوال ملاحظہ فرمائیں۔

 

۱)آزادی کا صحیح استعمال:

            آزادی ہم نے حاصل کر لی ہے لیکن آزادی کا صحیح طور پر کام میں لانا ابھی باقی ہے ہمارا فرض ھیکہ اپنی ساری قوتیں اس دوسرے کام کے لئے وقف کردیں امن، اتحاد،باہمی اعتماد اور حب الوطنی کے بغیر یہ مہم سر نہیں کی جا سکتی۔

 

۲)حسن کی دلآویزی:

            حسن آواز میں ہو یا چہرے میں،تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔

 

۳)عشرت ذہنی اور اسکی اہمیت:

            انسان کا اصل عیش دماغ کا عیش ہے جسم کا نہیں،عیش ومسرت کی جن گل شگفتگیوں کو ہم چاروں طرف ڈھونڈتے ہیں اور نہیں پاتے۔وہ ہمارے نہاں خانہ دل کے چمن زاروں میں ہمیشہ کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں۔۔۔۔باہر کے ساز وسامان عشرت مجھ سے چھین جائیں لیکن جب تک یہ نہیں چھینتا میرے عیش و طرب کی سر مستیاں کون چھین سکتا ہے۔

 

۴)موسیقی کی اہمیت:

            میں زندگی کے احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔آواز خوش میرے لئے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم ودل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔

 Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

۵)سوانح عمری کے بارے میں کہتے ہیں:

            عظیم سوانح عمریاں عوام کی تر بیت کرتی ہیں ایک پر عظمت سوانح عمری آئندہ نسلوں کے دور دراز کے پر پیچ سفر کو سہل اور آسان کر دیتی ہے گو،ہر انسان خود تجربہ کرنا چاہتا اور دوسروں کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھاتا لیکن ایک سوانح عمریوں میں اسقدر حقیقت ضروری ھیکہ دماغوں کو بالاتر کرتیں اور دلوں کو حوصلہ دیتی ہیں ہر سوانح عمری انفرادی سطح پر اجتماعی تجربے کی سر گذشت ہوتی ہیں۔

 

۶)شاعری :

            شاعری دلوں کی محبوبہ ہے اسکی صحبت میں انسان اپنے صدموں کو بھول جاتا ہے۔

 

۷)زندگی:

            زندگی نہ بھڑک اٹھنے کا نام ہے نہ بجھ جانے کا،زندگی نام ہے سلگتے رہنے کا۔

 

۸)دل لذت آشنائے درد:

            دل جب تک لذت آشنائے درد نہ ہو برف کی ایک قاش ہے جو پانی تو بن سکتی ہے مگر آگ نہیں۔

 

۹)مسلمان قوم:

            مسلمان کئی صدیوں سے ایسی حالت میں رہ رہے ہیں کہ آندھی کی طرح اٹھتے، طوفان کی طرح چھا جاتے اور گرد کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔

 

۰۱)اسلام کی سر بلندی کا راز:

            جو کھونا نہیں جانتے وہ پانے کا مزہ کیونکر لے سکتے ہیں جس نے کبھی کانٹوں کی کی چبھن نہیں دیکھی وہ تلوار کے زخموں کی روداد کیونکر بن سکتا ہے دریا میں اتر کر ہی تیرنا آسکتا ہے تم یہ چاہو کہ پاؤں گیلے نہ ہوں،پانی بدن کو چھوئے نہیں اور کنارے پر کھڑ ے کھڑے تیرنا سیکھ لو،تو یہ ممکن نہیں اسلام کی سر بلندی کا راز ساحلوں پر کھڑے ہو کر دریاؤں کا پیچ وتاب دیکھنے میں نہیں اسکی سر فرازی کے لئے تمہیں طارق کی طرح اپنی کشتیاں جلانی ہوں گی،کچھ کھو کر ہی کچھ پا سکتے ہو۔

 

۱۱)فقدان ہمت کا نام تقدیر:

            میں ستاروں کو الفاظ بنا سکتا ہوں اور چاندنی انکی آواز بن سکتی ہے اسی طرح صباء میرا لہجہ بن سکتی ہے ہمالہ کی بلندی میرے خیال کا افق ہو سکتی اور سمندر کی تہہ میرے فکر کا عمیق،لیکن تمہارے قدم میرا ساتھ نہیں دیتے شاید تمہارے لغت میں فقدان ہمت کا نام تقدیر ہے۔

 

            ان اقوال کی روشنی میں اتنا کہنا چاہونگی کہ وہ ہر تقریر،ہر خطبہ میں کوئی نہ کوئی اچھوتا خیال،کوئی نہ کوئی اچھوتا جملہ،کوئی اچھوتی ترکیب اور کوئی اچھوتا رنگ ضرور پیدا کرتے تھے جو چیز انکی زبان کا ایک بول ہوتی وہ دوسروں کے کئے معنی کا معجزہ۔

            بابو راجندر پرساد خود فارسی کے جید عالم تھے فرماتے ہیں۔

”اس عظیم ذہانت اور بے مثال برجستہ گوئی کا نام ابولکلا م ہے مولانا کا دماغ سینکڑوں دماغوں کا نچوڑ ہے قدرت نے انھیں ڈھال کر وہ سانچہ ہی توڑ دیا ہے جس میں اس مرتبہ کے انسان ڈھلتے تھے مولانا انسانی قامت میں ہندوستان کا سب سے بڑا کتب خانہ ہیں“۔

 Sayings of Sir Syed, Iqbal and Maulana Azad

            غرض ان تینوں ماہرین،مفکرین اور مدبرین قوم نے ایسے ایسے الفاظ بیان کئے ہیں جنمیں معنی کا ایک جہاں آباد ہے شاعری ہو کہ نثر،خطبات ہو کہ مقالات ہر طرح سے اپنی قوم کے لئے ایک درس دیا ہے ان اقوال کی  معنویت پہلے سے آتی ہے۔ کہیں ذیادہ بڑھ گئی ہے اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتی ہوں

 

سکھایا تھا تم نے ہی قوم کو شیر و شر سارا

جو اسکی ابتداء تم ہو تو انتہاء ہم ہیں

 

قمرالنساء

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو و فارسی،

گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ

9379714997

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو