نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

لندن سے لوٹا بیٹا اور دیہاتی والدین

لندن سے لوٹا بیٹا اور دیہاتی والدین

    Son returned from London and village parents 

      میرے ایک دوست نے مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ میں پڑھائی کے بعد لندن سے واپس آیا، سارا دن گھر پر پڑا رہتا تھا، ایک دن میری والدہ نے مجھ سے کہا: دوڑ کر جاؤ اور ہمسایوں سے تھوڑا سا نمک مانگ کر لے آؤ! میں نے حیرت سے ماں کی طرف دیکھا اور کہا: امی جی آپ کل ہی نمک لے کر آئی ہیں، وہ کہاں گیا، اور دوسرا اللہ کا ہم پر بڑا احسان، بڑا کرم ہے، ہم ہمسایوں سے نمک کیوں مانگ رہے ہیں؟

میری ماں نے ہنس کر کہا: تم پہلے نمک لے کر آؤ، میں تمہیں پھر بتاؤں گی

میں برا سا منہ بنا کر چلا گیا۔۔۔ ہمارا ہمسایہ بہت غریب تھا، اس کا دروازہ تک ٹوٹا ہوا تھا، میں نے اس کی کنڈی بجائی، خاتون خانہ باہر آئی، میں نے اسے سلام کیا اور بتایا، میں آپ کے ہمسائے خواجہ صاحب کا بیٹا ہوں، لندن سے آیا ہوں، میری والدہ کو تھوڑا سا نمک چاہیے، اگر ہو سکے تو آپ دے دیجیے، 

خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی، وہ اندر گئی،چھوٹی سی کٹوری میں تھوڑا سا نمک ڈال کر لے آئی اور مسکرا کر بولی، بیٹا امی کو میرا سلام کہنا اور پھر کہنا: آپ کو اگر مزید بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ منگوا لیجیے گا، میرے پاس آج فریش بھنڈیاں بھی ہیں۔

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور نمک لے کر آ گیا، میں والدہ سے بہت ناراض تھا، مجھے نمک مانگتے ہوئے بڑی شرم آئی تھی، میری والدہ نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی: بیٹا یہ لوگ غریب ہیں، یہ روز مجھ سے کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز مانگتے ہیں، ان کے بچے شروع شروع میں جب ہماری بیل بجاتے تھے تو مجھے ان کی آنکھوں میں شرمندگی اور بے عزتی محسوس ہوتی تھی، میں نے انھیں شرمندگی سے نکالنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے، میں ہر دوسرے دن ان سے کوئی نہ کوئی چیز مانگتی رہتی ہوں، کبھی نمک مانگ لیتی ہوں، کبھی مرچ کے لیے کسی کو بھجوا دیتی ہوں اور کبھی دوپٹہ، چادر یا بالٹی مانگ لیتی ہوں، میرے مانگنے کی وجہ سے یہ کمفرٹیبل ہو جاتے ہیں اور ان کو جو بھی چیز چاہئیے ہوتی ہے یہ ہم سے بے دھڑک لے لیتے ہیں

یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے،

ماں نے مزید نے فرمایا: بیٹا اپنے غریب ہمسایوں، رشتے داروں اور دوستوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے رہا کرو، اس سے ان کی انا بھی تگڑی رہتی ہے اور ہمارا بھی ان سے تعلق قائم رہتا ہے

میں نے اپنی ماں کا ہاتھ تھاما اور دیر تک چومتا رہا کہ مجھے زندگی کا شان دار ترین سبق دیا

میری والدہ نے شام کو میرے ذریعے اس ہمسائے کے گھر سالن بھی بھجوا دیا، میں گوشت کا ڈونگا لے کر گیا اور ان سے تھوڑی سی بھنڈیاں مانگ کر لے آیا، اس رات مجھے طویل عرصے بعد لمبی اور پرسکون نیند آئی۔

سید سلمان گیلانی۔

۔

۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو