نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اُردو کا اُستاد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ

اُردو کا اُستاد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیپر چیک کرتے ہوئے بندے کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی اور بندہ مسلسل مسکراتا ہی رہتا ہے ۔

مضمون نگاری کے حوالے موضوع تھا کہ "" جدید دور میں اولاد اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں """ تبصرہ کیجیے 

ایک بچے نے اپنے مضمون میں بہت ہی شاندار دلائل کے ہمراہ لکھا کہ "" جدید نسل اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے والدین کی شادیاں سولہ ، سترہ یا بیس سال کی عمر میں ہو گئی تھیں جبکہ جدید نسل کو چوبیس سال کی عمر تک تعلیم کے بہانے اکیلا رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھی نوکری حاصل کرنے میں تین چار سال مزید لگ جاتے ہیں ۔ جدید نسل اپنے بزرگوں کی چالاکیاں خوب سمجھتی ہے ۔ خود تو اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے ہیں

  اور دوسری طرف جدید نسل دیر سے شادی ہونے کی وجہ سے شاید ہی اپنی اولاد کو بھی جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوتا دیکھ سکے ۔

والدین اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد خوش رہے تو والدین کو اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی دوران تعلیم ہی شادی کر دینی چاہیے تا کہ جدید نسل اور والدین کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو سکے ۔ جہاں تک بات رزق کی ہے ، اس کی گارنٹی تو ڈگری کے بعد بھی نہیں اور ڈگری کے بغیر بھی لوگ یہاں گورنر بن کر یونیورسٹیوں کے چانسلر لگ رہے ہیں اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں 


 


۔۔۔۔۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور