نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

وھاٹس ایپ گروپ: دیـــــارمیــــــــر


سلسلہ : گـــــــرہ لـــــــگائیں

WHATSAPP GROUP 

GIRAH LAGAYEN, LOG HANSTE HAIN DIL ODAS LAY KAR

تاریخ : 20.12.2022


مصرع نمبر : 206


لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے


پورا شعر :


دل بھی خوش ہو کبھی یہ آس لئے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(خالد جمیل)


گــــــرہیں ۔۔۔۔۔۔۔


پھول مرجھا گئے ہیں، خوشبو ھے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(احمد کمال حشمی)


جیسے دریا ہے لب پہ پیاس لئے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(بلال صابر) 


ضبط غم حرماں   اور  یاس لئے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(تنویر احمد تنویر) 


جیسے پانی سراب  دکھتا ہے 

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے 

(م ، سرور پنڈولوی) 


ہم نے دیکھی ہے یہ اداکاری

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(اصغر شمیم) 


تلخیٔ زیست بڑھ گئی اتنی

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(فیض احمد شعلہ)


حکم شاہی ہوا ہے جب سے غیاث 

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(غیاث انورشہودی )


ہائے کیسی ہے بے بسی شعلہ 

لوگ ہستے ہیں دل اداس لئے 

(حسام الدین شعلہ)


درد کی بھیڑ آس پاس لئے

لوگ ہنستے دل اداس لئے

(سید اسلم صدا آمری) 


وقت کا اب یہی تقاضا ہے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے 

(جاوید مجیدی)


درد دِل کا عیاں نہ ہو جائے

لوگ ہنستے ہیں دل اُداس لیے

(مقصود عالم رفعت) 


ضبط کی ہے یہ انتہا خــــاور

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(احمد مشرف خاور)


شدت غم پہ ڈال کر پردہ

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(اطہرؔ مرشدآبادی)


کب سے اچھے دنوں کی آس لیے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لیے 

(حسن امام قاسمی) 


خا نۂ دل میں جھانک کر دیکھیں

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لیے

(مشتاق انجم)


غم نہ ظاہر ہو دنیا والوں پر

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے 

(حشمت علی حشمت)


زخم دکھلائیں بھی تو کیا ہوگا

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(سہیل اقبال )


ایسے لوگوں میں ہم بھی شامل ہیں

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(اشرف یعقوبی) 


میں نے دیکھا ہے ضبط کا عالم 

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(نثاردیناج پوری) 


دل  میں  اکثر  خیال  آتا   ہے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لیے

(عصمت آرا )


چہرے غمگین راس آتے نہیں

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(فرزانہ پروین)


یہ ستم کم نہیں ہے خود پہ میاں !

لوگ  ہنستے  ہیں  دل  اداس   لئے 

(ناصرمعین) 


ضبط کا مال آس پاس لیے 

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لیے 

(شاذیہ نیازی) 


ہےعجب دور بے بسی کا یہ

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(ن.عظیم) 


تجربہ زیست کا یہ کہتا ہے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

  (شاداب انجم) 


سینکڑوں زخم اپنے پاس لئے

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(جہانگیر نایاب)


رشک سے دیکھتے ہیں گریہ مرا

لوگ ہنستے ہیں دل اداس لئے

(ارشد جمال حشمی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتخـــ۔ـاب : احمد کمال حشمی ( ایڈمن 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو